سنا تھا کہ کالج کی لائف بہت مشکل اور محنت طلب ہوتی ہے مگر ابھی اُس کو کالج کی دہلیز پر قدم رکھے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ اُس کی حیرت میں اضافہ ہوگیا کہ کالج کی لائف تو اسکول سے بھی زیادہ آزاد ہوتی ہے۔
آزادی کی حد صرف گھر سے باہر تک نہیں بلکہ اب تو اسکول سے زیادہ سہیلیاں بن گئی تھیں اور گھر آنا جانا لگا ہی رہتا ہے۔
کبھی کمبائن اسٹڈی تو کبھی عید کی چاند رات میں سہیلیوں کے ہاتھوں میں مہندی کی چمک دمک۔
ایسے میں خاندان سےرشتہ آیا کہ گویا جیسے زمین ہی پاؤں تلے سے سرک گئی ہو۔
کافی سوچ بچار کے بعدفیملی کو بُلا لیا لڑکی بھی پسند آگئی، مگر ایک طرف دبی یہ خواہش کہ کالج لائف گھومنا پھرنا سب ختم تو دوسری طرف ’مان‘ کی ’آن‘ رکھنا۔
تو اُس نے فیصلہ سُنا ہی دیا کہ ابھی اور پڑھنا ہے اور جب وجہ پڑھنے کی تو کون منع کرسکتا تھا۔
اُس دن کافی گرمی ہورہی تھی، دھوپ کی تپش سے اُس کی رنگت سُرخ ہوتی جارہی تھی اور نزدیک کوئی رکشہ بھی نہیں آرہا تھا، آرہے تھے تو صرف گرمی کے گرم گرم بھبکے۔
ایسے میں ایک گاڑی نزدیک آئی جس میں بیٹھے شخص نے کہا کہ ’’کیا میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں؟ اس گرمی میں ڈراپ کر دوں؟ پریشان نہ ہوں میں یہ سامنے والے کالج میں آنرزکا اسٹوڈنٹ ہوں‘‘۔
اچانک وہ سہم گئی ۔۔۔۔اور دور ہٹ گئی
مگر یہ سلسلہ رُکا نہیں، روز انہ ڈراپ کرنے کے بہانے کالج سے جلدی باہر آنا اورانتظار کی طوالت کاٹنا۔
سہیلی سے مشہورہ کیا اور ہمت کرکےپوچھ ہی لیا کہ ’’کیا بات ہے‘‘ اتنا سُننا ہی تھا تو اس نے فوراََ دل کی بات کہہ دی۔
وہ اپنی حیرت زدہ آنکھوں سے تکتی رہی اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے دل حلق میں آگیا ہو اور بلا آخر کافی جتن کہ بعد عہدِ وفا کر ہی ڈالا۔
مگرملاقات کے بعد تنہائی میں ہر لمحہ فراق کی چبھن کو محسوس کرنے لگا تھا، بلآخر ہمت کرکے رشتہ گھر آیا تو اُسے تب پتا چلا کہ شادی تو خاندان اور برادری میں ہی کرنی ہے نہیں تو کنواری مرجاؤ۔
اس بات کو گزرے اب 40 برس گزر چکے ہیں، والدین کے جسدِ خاکی منوں مٹی تلے خاک ہو چکے ہیں، مگر وہ ایک چلبلی لڑکی جس کے گِرد سہیلیوں کا جمگٹھا لگا رہتا تھا، اب وہ کافی تنہائی سے مانوس ہوگئی ہےاور بالوں میں چاندنی نے گھر کرلیا ہے۔
وہ شام کو چائے کے لیے دودھ لینے گھر سے نکلی تو آواز کچھ برسوں پُرانی سنی سنی لگی، متوجہ ہوکر دیکھاتو چہرہ وہی تھا مگر جُھریوں نے چہرے کی نفاست کو متاثر نہیں کیا تھا، آنکھوں آنکھوں میں برسوں پُرانی ملاقاتوں کے کالج کے بس اسٹاپ کے تمام مناظر گردش کرنے لگے۔
اور پھر دونوں اپنے بچھڑے تمام سالوں کو بُھلا کر ایک ساتھ رہنے لگے۔