• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علامہ اقبال کا شاہین اور نوجوان

پروفیسر شاداب احمد صدیقی، حیدر آباد

ڈاکٹر محمد علّامہ اقبال صرف شاعر نہ تھے بلکہ عظیم مفکر اور رہنما بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر رحم کرتا ہے تو اسے مدبّر انسانوں سے نوازتا ہے۔علّامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک تلاطم پیدا کیا، جس کے نتیجے میں مسلمان قوم عمل پر کمربستہ ہوگئی۔وہ اپنی شاعرانہ فکر اور اظہار کے قرینے کے اعتبار سے سمندر تھے۔ اقبال کی شاعری فکر، سوچ، تخیل اور عقل و شعور کا خزانہ ہے۔ 

انہیں نوجوانوں سے خاص لگائو تھا ،یہی وجہ تھی کہ وہ نوجوانوں سے ہم کلام ہونے میں خاص کشش محسوس کرتے تھے۔ دراصل نوجوانوں میں کسی پیغام کو قبول کرنے کی نہ صرف صلاحیت ہوتی ہے بلکہ اس کے مطابق زندگی کو تعمیر کرنے کا جذبہ اور عزم بھی ہوتا ہے۔ اقبال کے خیال میں کسی قوم کی ترقّی اور عروج کا باعث مال و دولت کی کثرت نہیں بلکہ ایسے نوجوانوں کا وجود ہے، جو ذہنی اور جسمانی اعتبار سے صحت مند اور پاکیزہ اخلاق و کردار کے مالک ہوں۔ اقبال کے نزدیک قوم کی اصل دولت تندرست، ذہین، محنتی، چاق و چوبند نوجوان ہیں۔ 

انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں کو انقلابی پیغام کی طرف اُبھارا اور انقلابی شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں ایک نئی رُوح پھونک دی۔ اقبال ایک درد ،دل سوز، دوراندیش اور فکر قومیت رکھنے والی شخصیت تھے، جب وہ مسلم نوجوانوں کو غفلت کی نیند سوئے ہوئے دیکھتے تو ان کے مستقبل کے لیے پریشانی میں مبتلا ہو جاتے۔ ان کے اشعار نوجوانوں کی اصلاح اور شعور کی بیداری کے لیے تھے۔ شاعر مشرق عقاب کی ساری خوبیاں مسلم جوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی شاعری کا مسلم نوجوانوں پر ایسا سحر انگیز اثر ہوا کہ وہ جوش، ولولے، ہمت، حوصلے کے ساتھ الگ ریاست کے مطالبے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایسے سرگرم ہوئے کہ ایک الگ وطن پاکستان حاصل کر کے ہی دم لیا۔ 

اقبال کی شاعری کسی ایک دور کے جوانوں کے لیے مختص اور محدود نہیں ہے، جب بھی مسلم نوجوان غفلت میں پڑیں گے، اقبال کی شاعری ان کے لیے مشعل راہ بنے گی۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوان مغرب کی پیروی کرنے کے بہ جائے اپنے اسلاف کی زندگیوں کو قابل تقلید بنائیں۔ وہ مغربی تہذیب کی عارضی چکاچوند کو مسلم نوجوانوں کے لیے انتہائی نقصان دہ سمجھتے تھے، کیوں کہ یہ ظاہری چمک دمک رُوحانی اقدار سے ہٹ کر مادی ترقّی کی طرف لے جاتی ہے، جب کہ اسلامی تہذیب اور ہمارے اسلاف کی تعلیمات ایک پائیدار رُوحانی ترقّی اور انسانی بھلائی کے دروازے کھولتی ہیں۔ اقبال کی شاعری میں جن تصورات نے علامتوں کا لباس اختیار کیا ہے ان میں شاہین کا تصور ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ 

انہوں نے اپنی شاعری میں شاہین کو ایک خاص علامت کی حیثیت سے پیش کیا، وہ ان کا محبوب پرندہ تھا۔شاہین خوددار اور غیرت مند ،بلند پرواز ، خلوت نشین اور تیز نگاہ پرندہ ہے۔ان کے نزدیک یہی صفات مردِ مومن کی بھی ہیں ،وہ نوجوانوں میں بھی یہی صفات دیکھنا چاہتے تھے۔ شاہین کے علاوہ کوئی اور پرندہ ایسا نہیں ،جو نوجوانوں کے لیے قابل تقلید نمونہ بن سکے۔ شاہین بلند پرواز ہے عام پرندوں کی طرح نیچی پرواز اس کے شایان شان نہیں۔ نوجوانوں میں بلند پروازی کی صفت پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مقاصد بلند ہوں، ان کی سوچ میں پستی نہ ہو۔ 

شاہین کی نگاہ بہت تیز ہوتی ہے، نوجوانوں میں اس صفت کا مطلب ہے کہ وہ دُوراندیش ،مستقبل کے لیےمنصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ شاہین کسی اور کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا یعنی وہ خوددار ہے، اپنی محنت اور کوشش پر انحصار کرتا ہے۔ گویا مسلم نوجوانوں میں خودداری کی صفت ہونی چاہیے۔ وہ دُوسروں کے بہ جائے اپنی ذات کی محنت اور کوشش پر انحصار کرنے والے ہوں۔ شاہین آشیانہ بنا کر کسی ایک جگہ پابند رہنا پسند نہیں کرتا۔

شاعر مشرق نوجوانوں سے بھی یہی توقع رکھتے تھےکہ وہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر ترقّی اور عظمت کے خواب دیکھنے کے بہ جائے علوم و فنون کے حصول کے لیے پوری دُنیا میں جہاں کہیں بھی جانا پڑے، جانے سے گریز نہ کریں۔ ترقّی اور بہتری کے مواقع جہاں بھی نظر آئیں ان تک رسائی حاصل کرنے کی جدوجہد کریں۔ دُوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، مسلم نوجوانوں کی تربیت میں بھی یہی چیز شامل ہونی چاہیے۔شاہین کی صفات اگر کسی نوجوان میں بیدار ہو جائیں ،تو اس کی شخصیت ایک خوددار اور خودشناس انسان کے رُوپ میں ڈھل جاتی ہے۔ 

جس قوم میں ایسے نوجوان ہوں، اسے ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے ،تو اقبال نوجوان نسل کو جمود کے دور سے نکل کر آگے بڑھنے کے لیے انگیخت کرتے تھے۔ نوجوان نسل کو تبدیلی اور ارتقاء میں اپنا کردار ادا کرنے کی طرف راغب کیا ۔ اقبال کی شاعری میں ہمیں واضح پیغام ملتا ہے، کہ انسان مادی علم کی حدوں سے نکل کر چیزوں کی معنویت اور رُوحانیت پر بھی غور کرے۔

وہ نسل نو کو ترقّی اور کام یابی کا زینہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے قوم کی بنیاد تلوارکےبہ جائے علم و عرفان کو قرار دیا۔ نوجوان نسل کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتی ہے،جس قوم کے نوجوان بیدار و باشعور ہوں، اس کا مستقبل محفوظ اور تابناک ہوتا ہے ،جب کہ اس کے برعکس جس قوم کے نوجوان غیرفعال اور تن آسانی کے مرض میں مبتلا ہوں، وہ قوم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ نوجوانوں کا فعال کردار ہی قومی ترقّی کا ضامن ہے ۔ 

انہیں نوجوانوں سے خاصی اُمیدیں وابستہ تھیں،وہ ان میں عقابی رُوح بیدار کرنا چاہتے تھے۔ کلام اقبال کا ماخذ اور مدعا نوجوانوں کو انتہا پسندانہ رویوں سے دُور رکھنے، شیریں کلام اور شیریں بیان رہنے کا درس دیتا ہے۔ آج کے دور میں ان کے پیغام کو نوجوا ن نسل تک احسن طریقے سے پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ کلام اقبال ہی کے سہارے سے قوم کے مستقبل کو ملک و قوم کی تعمیر میں مگن کر سکتا ہے۔ آج اقبال کے یوم وفات پر ہمیں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے نصاب کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے، ہمارا ملک جن مصائب کا شکار ہے، ان سے نکلنے کے لیے اقبال کے شاہینوں کو ایک بار پھر میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔ 

ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اقبال کی شاعری منجمد نہیں بلکہ آفاقی ہے۔ وہ اپنی قوم سے اور نوجوانوں سے مایوس نہیں ،وہ جانتے تھےکہ یہ قوم تقدیر بدلنے کےگُر جانتی ہے ،بس اسے بیدار ہونے کی دیر ہے۔مگر افسوس کہ جب دور حاضر پر نظر ڈالی جائے، تو آج کا نوجوان ان تمام صفات سے عاری نظر آتا ہے، اگر کسی قوم کے نوجوان نظریاتی انتشار و خلل کا شکار ہو جائیں، تو وہ قوم کے لیے ذہنی غلامی کا دور ہوتا ہے۔آج کا نوجوان کاہل ،آرام پسند ، ذہنی و فکری طور پر بھی نہایت پستی کا شکار ہے۔ ہمارا نوجوان مغرب کی اندھی تقلید مین مصروف ہے۔نسل نوعلم تو ذوق و شوق سے حاصل کررہی ہے، مگر عمل سے دور ہے۔ نوجوان زمانے کے دُہرے معیار میں بٹ کر، اپنا اصل مقام کھو چکا ہے۔

علامہ اقبال بارہا اپنے اس خدشے کا ذکر اپنی شاعری میں بھی کر چکے ہیں ،کہ اگر نسل نومغرب کی اندھی تقلید میں محو رہی تو، اس کا انجام سوائے پستی کے اور کچھ نہیں۔عصرِ حاضر کے جوانوں میں عقابی رُوح بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو مشکلات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہونا ، خیالوں میں بلندی پیدا کرنی اور اُڑان بھی اُونچی رکھنی ، خود اعتمادی کو اپنا ہتھیار بناکر ، ستاروں پر کمندیں ڈال کر ستاروں سےبھی آگے جہانوں کی جستجو کرنی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال اپنی شاعری میں بھی نہایت دردمندی سے دُعا کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا پیغام عام ہو جائے اور جوانوں کو اس پیغام پر عمل کرنے کی توفیق بھی بارگاہ الٰہی سے عنایت ہو۔شاعر مشرق کی خواہش تھی کہ نوجوان ان کا پیام سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ صاحب کردار بنیں اور صاحب فکر و نظر بھی۔ 

اقبال نے نوجوانوں کو خدمت کی فکر سے آراستہ کیا ہے اور کائنات کی تسخیر کا کام اپنے شاہین یعنی نوجوانوں کے سپرد کیا ہے۔ نوجوانوں کی زندگی صرف یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ تعلیم اس لیے حاصل کریں کہ انہیں ملازمت مل جائے یا دولت کمائیں، بلکہ انہیں اپنے ملک و قوم کے لیے کچھ کر گزرنے کے جذبے سے سرشار ہونا چاہیے۔علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے شکست خوردہ قوم کے نوجوانوں میں زندگی کی رُوح پھونک دی اور نوجوانوں کو عمل پر آمادہ کیا۔ پاکستان خوابِ اقبال ہے، علامہ اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کر کے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک منزل دی۔ انہوں نے نوجوانوں کو اپنی عظمت رفتہ یاد کرنے اور مستقبل کے لیے ان تھک محنت کرنے پر اُبھارا۔ 

ملک و ملت کو درپیش مسائل کا حل پیغام اقبال کو عام کرنے میں ہے اور اس سلسلے میں تعلیمی اداروں، حکومت اور معاشرے کے باشعور طبقات پر یکساں ذمّہ داری عائد ہوتی ہے۔ اقبال کے خواب کی تعمیر اور تعبیرنسل نو کو اپنے عزم و حوصلہ سے کرنی ہے۔ یقیناً ہمارے نوجوان عزم وحوصلے سے بھرپور ہیں، لیکن انہیں تربیت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ تعمیر پاکستان کے لیے نوجوانوں کو قلم اور کتاب سے رشتہ استوار کرنا ہوگا، علمی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہوئے غفلت اوربےپروائی کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔آج کا نوجوان فکر اقبال اور اقبال کے پیغام سے ناواقف ہے۔نوجوانوں کی اکثریت کو توعلامہ اقبال کی پیدائش اور وفات کی تاریخیں بھی نہیں یاد رہتیں۔جانتے ہیں اقبال نے نسل نو کو شاہین سے تشبیہہ کیوں دی، کیوں کہ شاہین کی نگاہیں اس وقت تک اس کے شکار پر رہتی ہیں جب تک وہ اُس کو پا نہیں لیتا،اس کے عزائم بہت بلند ہوتے ہیں۔ 

یہی عزائم وہ نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے،مگر افسوس کہ نسل نو نے کبھی علامہ کی شاعری کو ،اس میں پوشیدہ پیغام کو اور ان کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کی اور نہ کبھی یہ جاننے کی سعی کی کہ وہ ان سے کتنی امیدیں رکھتے تھے۔ہم بہ حیثیت قوم اتنے خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس نوجوانوں کی صورت میں قیمتی اثاثہ و طاقت ہے، مگر افسوس کہ نسل نواس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اقبال کا مثالی نوجوان خوددار، تعلیم یافتہ، یقین محکم اور عمل پیہم کی خوبیوں کا حامل ہے۔آج ملک و قوم کو جو مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں ،ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں سے کام لینا ہوگا۔ 

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے نوجوان اپنے فرائض اور ذمے داریوں سےآشنا ہیں، بس انہیں درست رہنمائی کی ضرورت ہے۔دور حاضر میں اساتذہ اور بڑوں کی ذمے داری ہے کہ نسل نو میں میں شاہینی صفات بیدار کریں ۔ نوجوان نسل کوعلامہ اقبال کی فکر اور فلسفے سے روشناس کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے، ملک کو درپیش بیشتر مسائل کا حل اسی میں پوشیدہ ہے۔ ہمارے لیے اس سے بڑی خوشی کوئی ہوہی نہیں سکتی کہ ہمارے نوجوان اپنے ذہن سے سوچنا سیکھیں۔ مطالعے، تجربے اور مشاہدے سےذہن سازی ہوتی، شعور آتا اور ذہن کے دریچے کھلتے ہیں۔ 

علامہ اقبال کا کلام ہمیشہ نوجوانوں کے لیے مشعل راہ بنا رہے گا۔ کلام اقبال دُنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے، ان کے افکار کی کرنیں آج بھی نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہیں۔ نوجوانوں کے لیے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ اُصولوں پر استقلال سے چلتے رہنا کام یابی کا لازمی جزو ہے۔نوجوان دوستو! حضرت اقبال کی تعلیمات کو بخوبی سمجھو اور ان پر پوری طرح عمل پیرا ہو جائو کہ اسی میں ہماری ذاتی و قومی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔شاعر مشق کی تعلیمات اور فلسفہ خودی اور شاہین پر عمل پیرا ہو کر ہم عالمی دُنیا میں ایک خوددار قوم کا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ 

ہماری پریشانیوں کا حل ان کےافکار پر عمل کرنے ہی میں ہے۔نسل نو میں ان کی سوچ و افکار کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے،نوجوانوں کو چاہیے کہ محنت جستجو جدوجہد کو اپنا نصب العین بنا لیں۔

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سُلطانی کے گنبد پر

تو شاہیںہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

تازہ ترین