• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پولیس میں ’’جرگہ سسٹم‘‘

مسرور حسین ، باڈہ

سندھ کے زیادہ تر علاقوں میں جرگہ سسٹم کے تحت فیصلے کیے جاتے ہیں اگرچہ ملکی قوانین کے مطابق جرگوں کا انعقاد غیر قانونی اور ان کے تحت کیے جانے فیصلے غیر آئینی ہوتے ہیں لیکن سندھ کے وذیروں اور زمین داروں نے اپنے طور سے عدالتیں بنائی ہوئی ہیں، جہاں لوگوں کی زندگی و موت سے متعلق بھی فیصلے کیے جاتے ہیں۔اب پولیس نے بھی ملزمان کومبینہ طور سےماورائے عدالت سزا دینے کےلیے ’’جرگائی نظام‘‘ کواپناکر اس میں ’’فرائی اور ہاف فرائی‘‘ کی اصطلاح متعارف کرائی ہے۔ فرائی کا مطلب ہوتا ہے ملزم کا خاتمہ کردینا جب کہ ہاف فرائی کا مقصد معذور بناناہوتا ہے۔ پولیس کے اس جرگے کا سربراہ کوئی اعلیٰ افسر ہوتا ہے۔ 

اس خود ساختہ قانون کے تحت ملزمان کو عدالت میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ انہیں راستے میں ہی مبینہ طور سےپولیس مقابلہ دکھا کر فرائی یا ہاف فرائی کردیا جاتا ہے ۔ پولیس جرگے کی زد میںبے قصور افراد بھی آتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پولیس اپنے ذاتی مخالفین اور بااثر شخصیات کے نا پسندیدہ افراد کو بھی اس خود ساختہ قانون کے دائرہ کار میں لاتی ہے۔ اس کا ایک اور سبب بھی ہوتا ہے وہ یہ کہ پولیس افسران حراست میں لئےگئے افراد کو رہا کرنے کے لئے ان کے اعزاء سے بھاری رقومات کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں اور مطالبہ پورا نہ ہونے پر جعلی مقابلے میں فرائی یا ہاف فرائی کر دیتے ہیں ۔

روزنامہ جنگ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق ،حال ہی میں ایسا ہی ایک کارنامہ باڈہ اور رتوڈیرو پولیس نے بھی انجام دیا ۔لاڑکانہ سے دو محنت کش نوجوانوں کو حراست میں لینے کے بعد ان میں سے سلیم بھٹو کو باڈہ پولیس نے اور رتو ڈیرو پولیس نے جنید میرانی کو الگ الگ علاقوں میں ہاف فرائی کیا۔ جنہیں تشویش ناک حالت میںلاڑکانہ اسپتال میں داخل کرایا گیا اور پولیس کی حراست میں ہی ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔ 

پولیس کی جانب سے مذکورہ ملزمان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف مختلف تھانوں سے مقدمات کی تفصیلات کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے ۔ دوسری جانب جنگ کو معلوم ہوا ہے کہ پولیس کو مبینہ مقابلے میں ہاف فرائی کئے گئے محنت کشوں کے خلاف کسی بھی تھانے میں کوئی بھی مقدمہ درج نہیں ہے،تاہم پولیس کی جانب سے مبینہ مقابلے کے مقدمات باڈہ اور رتوڈیرو تھانوں میں درج کرائے گئے ہیں ۔

اسپتال میں زیرعلاج محنت کش سلیم بھٹو نے نمائندہ جنگ کو بتایاکہ وہ لاڑکانہ کی ایک فیکٹری میں کپڑوں پر استری کرنے کا کام کرتا ہے۔اسے اور جندمیرانی کوجناح باغ لاڑکانہ کے قریب سے پولیس نے حراست میں لیا اور ہمیں مارکیٹ تھانےمیں رکھا گیا،جہاں سے انہیں سی آئی اے پولیس کے حوالے کیا گيا۔ انہوں نے ان دونوں کوسخت تشدد کا نشانہ بنایا اورناکردہ جرائم قبول کرنے پر مجبور کرتے رہے۔ بعدازاں مجھے باڈہ پولیس او رجنید میرانی کو رتوڈیروتھانے کے حوالے کیا گیا۔ باڈہ پولیس نے میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور ایک ویران جگہ پر لے گئے، جہاں میری ٹانگ پر گولی مارکرمجھے معذورکردیا۔اس نے کہا کہ میں صبح سے رات تک محنت مزدوری کرکے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتا ہوں۔ 

میرا کسی بھی قسم کے جرائم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ اس نے مطالبہ کیا کہ مجھے گرفتار کرنے اور مبینہ پولیس مقابلہ دکھا کر مجھے معذور کرنے والے پولیس اہل کاروںکے خلاف سخت کارروائی کرکے مجھے انصاف دلایا جائے۔ جنید میرانی نے بھی جنگ کو اسی قسم کی کہانی سنائی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ اور صوبائی وزیر داخلہ پولیس کے جرگائی قوانین، فرائی اور ہاف فرائی کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں اور مبینہ پولیس مقابلے میں معذور کیے جانے والے محنت کشوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے کس نوعیت کے اقدامات کر تے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین