• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس، ایک منصف ایک مصلح
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے:یکجہتی چاہئے نہ مدد اب عدلیہ کو کام کر کے دکھانا ہوگا، تعلیم سے محروم قومیں ترقی نہیں کرسکتیں، اتائی ڈاکٹرز کے کلینک ایک ہفتے میں بند کردیئے جائیں، شاید شر خیر سے کہہ رہا ہو کہ یہ ایک شخص ہی ہے ریٹائر ہو جائے گا، پھر وہی سابقہ انصاف ہوگا اور وہی چال بے ڈھنگی ہوگی پھر میرے پیروکاروں کو پیر لگ جائیں گے، دیوار پر لکھے سارے نوشتے اتر جائیں گے، نہ جا نے کیوں میرے دل میں یہ دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ ایک فرد آخر کب تک رہے گا اور منصف و مصلح کا کردار ادا کرتا رہے گا اور ممکن ہے کئی یہ بھی سوچ رہے ہوں کہ کچھ دیر کے لئے ’’دڑ وٹ جائو‘‘ بے انصافی پر آیا برا وقت ٹل ہی جائے گا، بلاشبہ چیف جسٹس بے لوث انداز میں اپنا بنیادی کردار ادا کررہے ہیں، مگر ہمیں تو ایک طویل علاج معالجے کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان کا ہر جج آج ثاقب نثار ہے، تبدیلی کا نقارہ بجانے والے تو کوئی اور تھے مگر جو تبدیلی لا رہے ہیں وہ کوئی اور۔ ہمیں پوری توقع ہے کہ چیف جسٹس کوئی بھی ہو اب سپریم کورٹ ایسی ہی رہے گی جس طرح کی ہوگئی ہے، انہوں نے عدل کیا اصلاح کیلئے اور جب دیکھا کہ اصلاح کرنے والے ٹس سے مس نہیں ہورہے تو یہ کام بھی خود سنبھال لیا اور کام ہوتے نظر آنے لگے، قوم ایک دوسرے سے یک جہتی کرے، مدد کرے یہی مطلوب ہے، آج ہم جن حالات سے دوچار سینہ پیٹ رہے ہیں وہ سزا اس جرم کی جو ہم نے تعلیم، علم، معلم اور تعلیم گاہوں کی توہین کر کے کیا، اور حیرانی ہے کہ اس جرم میں تعلیمی اور تعلیم، تعلم اور علم کا کوئی جرم نہیں، البتہ حکمران، معلم اور علم کا کاروبار کرنے والوں کا بڑا کردار ضرور ہے، جب حکمرانی درست نہ ہو تو تعلیمی ادارے کیا مساجد بھی کچھ نہیں کرسکتیں، ہم یہاں ایک بات بڑے دکھ سے عرض کردیں کہ ہم ہر لحاظ اور پہلو سے کچھ اذیت دہ ہو چکے ہیں، تکلیف پہنچا کر اور تعلیم کو بالخصوص دسترس سے باہر رکھ کر کیوں خوش ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
گڈگورننس ہو تو احتجاج نہ ہو
ماں دودھ پلا دے تو بچہ کیوں روئے، روئے زمیں پر حکمرانی اس لئے دی جاتی ہے کہ دولت کی تقسیم درست رکھی جائے، ہر شعبے کو بہتر انداز میں چلا جائے، تحفظ ملے، روزگار ملے، محنت کا پھل ملے، کرپشن سفارش نہ ہو تو لوگ کیوں سڑکوں پر آئیں، راستے چلنے کیلئے بنائے جاتے ہیں ٹھہرنے کیلئے نہیں، مگر جب ان پر خیمے لگ جائیں تو سمجھ لیں کہ کرب وبلا کا سماں ہے اور وقت کے سلطان سے کوئی بھول ہو ئی ہے خدمت کے جذبے سے سرشار اور ہوس اقتدار سے بیزار افراد ہی سیاست حکومت میں آئیں تو شیر بکری ایک گھاٹ پانی پئیں، جس نے راتوں رات امیر بننا ہوتا ہے وہ سیاست میں آتا ہے یا کرکٹ میں، کیا ایسا ہی نہیں، 70برس بیت گئے یہی تماشا تو ہوتا ہے سب کے آگے، مجرم کو سزا نہ ملے، ملے بھی تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو، اچھے کو شاباش نہ ملے تو حوصلے ٹوٹ جائیں، خوشیاں روٹھ جائیں، معاملات میں افراد میں امیری غریبی میں فرق بڑھتا جائے تو گریبان کیسے سلامت رہیں، جان کیونکر محفوظ رہے، عزت کیوں بدبو دینے لگے، بہار کیوں خزاں لگے، دل خوش ہو تو سب ہرا ہرا لگے، دل ٹوٹے تو بھرے پیمانے بھی شکستہ لگیں، اس وقت وطن عزیز میں جو منظر ہے اور جن پر بھی مصیبتیں ایک ساتھ ٹوٹ پڑی ہیں کیا یہ سب اپنے ہاتھوں کی کمائی نہیں، اور اپنے کئے کا کیا علاج، فرد خود سے فارغ نہیں ہوا دوسروں کیلئے فارغ ہے، خبر دیں خبردار کرنے کیلئے اپنی خبر نہ دیںکہ میں ہوں نا، میں کہو ضرور اس کی پرستش نہ کرو، کہ یہ میں پرستی بندے کو کھول دیتی ہے ایک دن، خوشی قناعت میں ہے اور بچت بھی اسی میں، کیا کوئی حکمران واقعتاً ماحول سنوارنے آتا ہے یا اپنا سنگھار کرنے؟
٭٭٭٭٭
سنسنی خیزی، پسندیدہ مشغلہ
لہو گرمانے کا بہترین ذریعہ محنت ہے، مگرہم خود کو ٹھنڈا رکھنے دوسروں کو گرم رکھنے کیلئے اذان دینے میں بھی سنسنی پیدا کرنے سے نہیں چوکتے تو عام گفتگو میں کیسے اس مشغلے سے باز آسکتے ہیں، کہیں کوئی بات سن لیتے ہیں پھرپیٹ پھولنے لگتا ہے تو نتھنے پھلا کر اور بات میں مرچ مسالا ملا کر اپنے گھر میں، دفتر میں، اسٹیج پر اس طرح گرجتے ہیں جیسے بن بارش کے بادل، یہی وجہ ہے کہ دلوں کی کھیتی خشک اورمزاج جور گرم رہتا ہے، ایسے کھانے کھاتے ہیں جو تیزابیت پیدا کریں اور غیظ و غضب میں اضافہ کریں، یہ پتہ بھی نہیں کہ جب بات بڑھک کے انداز میں کی جاتی ہے تو بے اثر ہوتی ہے، معتدل لہجے میں تو جھوٹ بھی سچ لگتا ہے اگر سچ بولیں تو کس قدر تاثیر ہوگی، جس پولیس سے ہم بہت زیادہ ’’پیار‘‘ کرتے ہیں اس کے طرز عمل کے باعث ہر شخص کو اس کی تڑی لگاتے کہتے ہیں ابھی پولیس کو اطلاع کرتا ہوں، اگر کوئی انسان حد اعتدال کو پار نہ کرے تو وہ ہر بلا سے ہر طوفان سے محفوظ رہتا ہے مگر ہم ہیں اوکھلی میں سر دینے والے، اپنے سر مصیبت لینے والے اور خمیازہ بھگتنے والے، اگر فوری ری ایکشن کو تھام رکھیں تو کتنی آتی بلائیں ٹل جائیں، دنیا میں جن عظیم ہستیوں نے جینے کا سلیقہ سکھایا وہ ٹھہر ٹھہر کر دھیمے لہجے میں گفتگو کرے اور انقلاب برپا کردیتے، ہم سنسنی پیدا کر کے خود اپنی ہی باتوں کے ہاتھوں ہتھکڑی لگوا لیتے ہیں، لوگوں سے خوبصورتی سے بات کرو، زمین پر آرام سے چلو، جاہل سے عالمانہ گفتگو کرنے کے بجائے اسے سلام کر کے گزر جائو، تہمت کی جگہوں سے دور رہو، زمانے کو برا مت کہو، اپنا عیب تلاش کرو، اپنی ذات کو مسلط کرنے کی کوشش نہ کرو، اگردلوں میں گھر کرنا چاہتے ہو، ایسے ماحول میں نہ جائو جہاں جنسی ہراسگی کا خدشہ ہو، دولت، شہرت، شباب مل جائے تو کسی کو چھیڑنا اپنا استحقاق نہ جانو، جہاں جائز ضرورت پوری ہو جائے وہیں رک جائواپنی ضرورت سے زائد ضرورت مند کو دیدو، سنسنی سے بھرپور فلمیں مت دیکھو، عاجزی اور سادگی میں ایک ایسا حسن ہے کہ کوئی میک اپ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
٭٭٭٭٭
ماپروردہ یک نو بہاریم!
٭....مفکرپاکستان علامہ محمد اقبال کا 80واں یوم وفات منایا گیا۔
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کا یوم وفات، یوم ولادت کے طور پر منائیں۔
٭....پاک امریکا تنائو، ایلس ویلز پیر کو پاکستان آئیں گی،
ہمیں اب امریکا کے طلسم سے نکل کر خود کو طلسم ہوشربا بننے کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے، جب پاکستان لینے والا ہاتھ نہیں بنے گا تب سب تنائو ختم نہیں ہوگا۔
٭....مودی نے اپنی صحت کا راز یہ بتایا کہ وہ روزانہ دو کلو گالیاں کھاتے ہیں،
یومیہ دو کلو گالیاں کھانے کیلئے دو ٹن ظلم و بربریت درکار ہوتا ہے۔
٭....علی ظفر پر شوبز حسینائوں نے الزامات کی بوچھاڑ کردی،
بہرحال اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
٭....شیخ رشید:حکمران اللہ کی پکڑ میں ہیں،
اور آپ عمران خان کی گرفت میں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین