چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ نظام تعلیم کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا گیا ہے ، یہ ہے پنجاب حکومت کی کارکردگی؟، سینئرز کو کیسے نظر انداز کیا گیا، عدالت کے علم میں ہے کہ احسن اقبال کا تعیناتی میں کیا کردار ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میںوائس چانسلر لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی تعیناتی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے۔
سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر عظمٰی قریشی نے بتایا کہ احسن اقبال ان کے والد کے شاگرد ہیں، تعیناتی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔
اس موقع پر وزیر ہائر ایجوکیشن علی رضا گیلانی نے کہا کہ عظمیٰ قریشی کی تعیناتی میرے دور میں نہیں ہوئی اور تعیناتی سے متعلق انکوائری میرے پاس آئی تھی۔
جسٹس ثاقب نثار نے میرٹ کے برعکس سرکاری یونیورسٹیز کے متعدد وائس چانسلرز کو استعفے دینے کی ہدایت کرتے ہوئے نئی سرچ کمیٹیاں قائم کر کے وائس چانسلرز کی جلد تعیناتیاں کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے سینیئرز لوگوں کو کیوں نظر اندازکیا گیا، ہائیر ایجوکیشن کے وزیر کہاں ہیں، پنجاب یونیورسٹی اہم ترین ہے، ڈھائی سال سے مستقل وی سی کیوں تعینات نہیں کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن سے استفسار کیا کہ بتایا جائے کوتاہی کا ذمہ دار کون ہے، سیکرٹری، وزیر یا وزیراعلیٰ میں سے کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اڑھائی سال سے مستقل تعیناتی نہ ہونے کا مطلب آپ نااہل ہیں جس پر سیکرٹری ہائی ایجوکیشن نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی میں مستقل تعیناتی کے لیے اگست تک کا وقت درکار ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت تو موجودہ حکومت نہیں ہوگی،کیا اتنا طویل وقت اسی لئے مانگا جارہا ہے۔
سیکرٹری ہائر ایجوکیشن نے کہا کہ درخواستوں کو پراسس کرنے کے لیے وقت چاہیے جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اتنا متعصب ڈی ایم جی افسر میں نے نہیں دیکھا جو سیاسی حکومت کا دفاع کررہا ہے، اگر 6 ہفتوں میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی نہ ہوئی تو ذاتی طو پر تم ذمہ دار ہوگے۔