• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پر اس وقت دو قسم کی جنگیں مسلط کی گئی ہیں، ایک ہائبرڈ جنگ (Hybrid War) جسے مختلف نسلی یا تہذیبی جنگ کہا جاسکتا ہے اور ساتھ ساتھ اس میں چوتھی نسل کی جنگ کا تاثر بھی دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ جنگیں کیا ہوتی ہیں، جنگوں کے انداز اور طریقوں میں تبدیلی کوامریکہ کے کئی تجزیہ کاروں خصوصاً ولیم ایس نے نسلوں کی جنگ کو زیربحث لاتے ہوئے پہلی تین جنگوں کو اس طرح بیان کیا ہے کہ پہلی نسل کی جنگ میں پرانا طریقہ کار اور قدیم یونانی جنگ کے بعد یہ جنگیں افرادی قوت سے جس میں فوجیوں کی قطاریں، درمیانی، دائیں اور بائیں اور محفوظ فوج کے ذریعے لڑی جاتی تھیں، پھر تیر اندازی، نیزہ بازی اور شمشیر اُن کے ہتھیار ہوتے تھےجبکہ فوج کی کوئی وردی نہیں ہوتی تھی، اگرچہ یورپ اپنی فلموں میں چمک دھمک اور کشش بڑھانے کے لئے اُن کو وردی والے سپاہی دکھا دیتے ہیں۔ دوسری نسلی جنگ میں رائفل اور بارود کا استعمال ہوا جو جدید طور کے شروعات میں شروع ہوئیں، اگر اس سے پہلے منجنیق کا استعمال ہوا جس سے قلعہ کی دیوار توڑنے کے لئے بھاری پتھر پھینکے جاتے تھے، یہ ایک قسم کا غیرآتشی میزائل لانچر تھا بعد میں اسی طریقے سے آگ بھی برسائی جانے لگی مگر بعد میں بارود کا استعمال سوئیڈن اور جرمنی کے سائنسدانوں کی مدد سے شروع ہوا اور اُن میں سے ایک ایسی جنگ روس کے قریب امام شامل اور روسی فوجوں کے درمیان ہوئی اور پہلی مرتبہ بارود کا استعمال ہوا، یہ شاید 1571ء کا سال تھا اور اس کے ساتھ توپوں، مشین گنوں اور رائفل کا استعمال شروع ہوا۔ تیسری نسل کی جنگ جدید دور کے کچھ برس کے بعد سے شروع ہوئی جس میں آج کے دور کے مقابلےمیں قدرے پرانے ہتھیار اور جنگی حکمت عملی استعمال ہوئی، جس میں ہتھیاروں کو دور سے تیز رفتاری سے ہدف پر نشانہ لگا کر پھینکنا اور ایسے ہتھیار استعمال ہونا شروع ہوئے جو آنکھوں سے نہ دیکھے جاسکتےتھے یا ریڈار پر نظر نہ آسکتے تھے اور آگے لڑنے والی فوجوں کو پیچھے سے اور اُن کی مرکزی زمین میں تباہی پھیلا کر تباہ کردیا جانے کا طریقہ کار وضع ہوا۔ ایسی جنگ میں آمنے سامنے کی جنگ کے ساتھ ایک دوسرے کو میدانِ جنگ کی پیچھے جنگ کرکے شکست یا جیت کا تصور ابھرنے لگا، اگر پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں کو دیکھا جائے تو وہ تینوں طریقوں سے لڑی گئیں۔ چوتھی نسل کی جنگ میں دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق مرکزیت کا تصور نہیں ہوتا، وہ ہر طریقہ سے لڑی جاتی ہیں، پہلی جنگوں میں غیرمسلح افراد کو بچانے کا طریقہ کار وضع کیا گیا، اس پر بہت سے معاہدےہوئے جو جنیوا کنونشنز کہلاتے ہیں، مگر اس طریقہ جنگ میں آمنے سامنے کی لڑائی، سویلین آبادی کو نقصان پہنچانا اور کسی ملک کی دفاع کو کمزور کردیا جاناشامل ہے، جنگیں آج بھی زمین کے قبضے کے لئے ہوتی رہتی ہیں مگر ٹینکوں کی جنگ کہلاتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمنی اور روسی افواج کے درمیان 23 سے 27 جون 1941ء میں ٹینکوں کی جنگ اور 1965ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چونڈہ کی جنگ۔ مگر اب آمنے سامنے کی جنگ سے نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری عالمگیر جنگ میں ہر طرح کے ہتھیار استعمال ہوئے یہاں تک کہ امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیئے۔ پھر اس جنگ کے ختم ہوجانے کے بعد کیونکہ کئی ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار آگئے تھے جن میں تو ان ایٹمی ممالک نے اپنی دنیا بنا ڈالی مگر انسانی جبلت نہیں بدلی، اس کی وجہ سے دنیا میں 1945ء کے بعد کوئی بڑی جنگ تو نہیں ہوئی مگر دنیا کو زیردست کرنے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے، اسٹرٹیجک جگہوں کو اپنی دسترس میں لینے کے لئے جنگیں ضرور شروع ہوئیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ ایٹمی میزائل نظام معرضِ وجود میں آیا اور اس کے بعد دوسرے ایٹمی حملہ کی صلاحیت روس اور امریکہ دونوں نے حاصل کرلی۔ اس وجہ سے بڑی جنگ رکی ہوئی ہے تاہم ایک ملک دوسرے ملک کو کمزور کرنے کے لئے اس کے ملک میں مداخلت کرنے اور تضادات کو چاہے وہ نسلی ہوں، مسلکی یا لسانی ہوں کو ابھارے، اُن کو آپس میں لڑانے، اپنے جاسوسوں کے ذریعے خودکش حملے کرانے، سرحدوں پر مسلسل فوج کو مصروف رکھےجانے، ایک محاذ کی بجائے کئی محاذ کھول دینے، معاشی طور پر کمزور کرنے، پانی اور ضروریاتِ زندگی کی کمیابی کرنےکی کوششیں شروع جیسے کہ پاکستان میں کوشش کی گئی کہ پاکستان کی مسلح افواج کو کمزور کیا جائے، ماضی میں ہماری فضائی، بحری اور بری اڈوں پر حملے ہوتے رہے تاہم اس ملک کے لوگوں نے بہادری کے ساتھ اس کو برداشت کیا، لسانیت کو شکست دی گئی، سرحدوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ پہلے پاکستان کا ایک محاذ تھا اب دوسرا محاذ افغانستان کی طرف سے قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ پاکستان کی فوج کی قوت تقسیم ہوجائے۔ پاکستان کی زمین پراب کوئی حملہ نہیں کرسکتا کہ پاکستان ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے اور حملہ اس لئے بھی نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے پاس جدید ترین میزائل اور فریگیٹ ہیں۔ اس پر ہی اکتفا نہیں پاکستان کے پاس بھی دوسرے ایٹمی حملہ کی صلاحیت موجود ہے، جس کا اظہار پہلے پاکستان نے جنوری 2017ء میں کیا اور اس سال دو مرتبہ ایٹمی اسلحہ کی صلاحیت کے میزائل بابر کے تجربے کرکے دشمن کو مطلع کیا کہ وہ اپنی حد میں رہے، اس پر بھارت نے پاکستان کی سرحد کی قریب فضائی مشق کرکے کوئی پانچ ہزار سے زائد پروازیں اپریل 2018ء کے وسط میں کی ہیں، اس کے باوجود پاکستان نےملک میں دہشت گردی پر قابو پایا، اور اسلحہ کو جدید سے جدید بنا کر کسی خوف کو اپنے قریب نہیں آنے دیا۔ یہ اعزاز پاکستان کو ہی ملا کہ اس نے ہائپرڈ جنگ پر قابو پایا جبکہ ساری دُنیا کی افواج اس پر قابو پانے میں ناکام ہوئی ہیں۔ ہم نے نظریاتی طور پر اس جنگ کو جیتا بلکہ اس جیت کو برقرار رکھا تاہم چوتھی نسل کی جنگ سب سے جدید طرز جنگ مانی جاتی رہی ہے۔ اس میں جنگ کا تصور ہی یکسر بدل گیا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ پہلے جنگیں ریاست اور ریاستوں کے درمیان ہوتی تھی اور اب ریاست اور غیرریاستی اسٹیٹ ایکٹرز حصہ لیتے ہیں۔ اس میں فوجیوں اور عام شہری میں تفریق کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ دونوں ہی ہدف ہوتے ہیں۔ گوریلا حکمت عملی بھی استعمال ہوتی رہی اور اس میں افراتفری پھیلانے کا عنصر نمایاں رہتا ہے اور اس میں جھوٹی خبروں کا پھیلائو، افواہیں، میڈیا کا غلط استعمال ہوا، نفسیاتی جنگ بھی اس کا حصہ کہلائی جاتی ہے تاہم پانچویں نسل کی جنگ میں جدید ڈرونز، روبوٹس، سائبر جنگ، اس میں انسانوں کو تباہ کئے بغیر فتح کےحصول کا تصور موجود ہے کہ ایک ہدف کو نشانہ بنایا جائے، وہ نظر میں نہ آئے نہ انسان دیکھ سکے اور نہ جدید آلات۔ وہ تمام آلات جس سے الیکٹرو مگنیٹک لہریں نکلتی ہیںاُن کو منجمد کردیا جائے۔ اس میں گلوبل پوزیشنگ نظام (GPS) رہنمائی کرنے والا آلات موجود ہیں۔ جس کی مدد سے فوجی اڈوں کو تباہ کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ میں ڈرون کی مختلف اقسام ایجاد کرلی گئی ہیں جس کے بعد کہا جارہا ہے کہ یہ امریکہ ہی ہوگا جو پانچویں نسل کی جنگ شروع کرے گا اور کب کرے گا یہ وہی جانتا ہے مگر حال ہی میں روس نے آواز سے بیس گنا رفتار کے میزائل بنا کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور کچھ ایسا ہی اس وقت ہوا جب 16 اگست 2016ء کو کوانٹم سیارہ چین نے خلاء میں بھیجا جس سےوہ امریکہ کے سائبر حملہ کو روک سکتا ہے۔ یوں پانچویں نسل کی جنگ کی شکل پوری طرح واضح نہیں ہوئیہے، اگرچہ اس کی شکل کو واضح کرنے کے لئے تجربےکئے جارہےہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین