• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے طوطے سے بدگمان ہو کے طوطے کو مار دیا جاتا ہے پھر جب حقیقت کھلتی ہے یا دکھائی جاتی ہے تو طوطے کی یاد میں آنسو بہائے جاتے ہیں۔ آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ یہ طوطے کی باتیں یہاں بیان کرنے کا کیا مقصد ہے۔ اچھے وقتوں میں یعنی زمانہ قدیم میں جب ابھی فیس بک، ٹویٹر یا واٹس ایپ کی سہولت موجود نہیں تھی تو اس وقت جو کیا جب کیا کی زبانی اطلاع ہی ایک مکمل ثبوت ہوتی تھی۔ ایک تاجر رہا کرتا تھا جو اپنی تجارت کی غرض سے اکثر سفر میں رہتا تھا۔ ایک بار وہ پرندوں کے بازار سے گزر رہا تھا کہ اس نے ایک بولنے والا طوطا دیکھا ۔ دکاندار نے خوب تعریف کی۔ تاجر نے یہ طوطا خرید لیا اور گھر لے آیا۔ اور روز اس سے گھر آکر باتیں کرنے لگا۔ کچھ دنوں کے لئے تجارت کی غرض سے شہر سے باہر چلا گیا۔ جب واپس آیا تو حسب معمول طوطے سے باتیں کرنے لگا کہ میری غیر موجودگی میں کیا گزری۔ طوطے نے کہا کہ بات تو شرم کی ہے لیکن ہے گھر کی عزت کی بات اس لئے چھپا بھی نہیں سکتا۔ تیرے جانے کے بعد تیری بیوی بیباک ہو جاتی ہے اور سب گھر کے ملازمین کو ڈراتی ، دھمکاتی بھی رہی کہ اگر گھر کے مالک کے سامنے زبان کھولی تو مالک سے ہی زبان کٹوا دونگی۔ لیکن میں آپ کا دانا کھا رہا ہوں چھپا نہیں سکتا تھا۔ مالک سخت طیش میں آ گیا تو اسی دوران اس کے سامنے اس کی بیوی آگئی۔ اس نے پٹائی شروع کر دی کہ تو یہ کیا گل کھلاتی ہے۔ تو اس عورت نے کہا کہ تجھ سے کسی نے بکا اور جس نے بکا جھوٹ بکا۔ وہ بولا کہ کوئی جھوٹ کیوں بولے گا ۔ عورت بولی کہ میرے اس گھر پر راج کے حسد کی وجہ سے، تاجر ہنس دیا۔ کہ طوطے کو تیرے راج سے کیا حسد ہو سکتا ہے۔ عورت کے دل میں انتقام کا الائو جلنے لگا کہ اس کی اتنی جرات اور طوطے کو سبق سکھانے کے لئے کسی طریقہ کار پر غور کرنے لگی۔ ایک رات تاجر گھر سے باہر تھا اس عورت نے ایک ملازمہ کو حکم دیا کہ چکی کو طوطے کے پنجرے کے قریب چلانا شروع کر دے۔ مگر طوطا نہ دیکھ پائے۔ چکی بجلی کڑکنے کی آواز میں چلنے لگی۔ دوسری ملازمہ کو حکم دیا کہ بارش کی صورت میں پنجرے اور اس کے ارد گرد پانی برسانا شروع کر دے۔ جبکہ تیسری کو کہا کہ اس گھپ اندھیرے میں تو کافور کی موم بتی جلا اور پنجرے کے سامنے آئینہ رکھ دے کہ جس سے یہ محسوس ہو کہ بجلی کڑک رہی ہے۔ غرض پوری رات یہ تماشا چلا اگلے دن جب تاجر گھر واپس آیا تو طوطے سے حسب معمول باتیں کرنے لگا ۔ طوطے نے شکایت کی کہ کل ساری رات بجلی کڑکتی رہی۔ موسلا دھار بارش ہوتی رہی مگر تیری بیوی نے زحمت نہ کی کہ میرے پنجرے کو اٹھا کر اندر رکھ دیتی۔ تاجر ششدر رہ گیا بولا کل رات تو نہ بجلی کڑکی نہ رم جھم برسی، بیوی جو اسی وقت کی منتظر تھی جھٹ بولی اس دن بھی اس نے مجھ پر ناحق الزام دھرا تھا۔ تاجر غصے سے بے قابو ہو گیا اور طوطے کو پنجرے سے نکال کر زمین پر پٹخ دیا۔ طوطے کی حقیقت ہی کیا تھی وہیں مر گیا۔ لیکن حقیقت چھپ نہیں سکتی۔ کچھ دنوں بعد ایک ملازمہ نے جسے مالکن نے ملازمت سے نکال دیا تھا اس تاجر کے پاس آئی کہ اس طوطے نے سچ کہا تھا اور اگر یقین نہ ہو تو آج رات دیکھ لینا۔ تاجر گھر سے جانے کا بہانہ کر کے قریب ہی چھپ گیا تو رات کو اس نے سب دیکھ لیا۔ تاجر کی آنکھوں میں اپنے وفادار جانور کی المناک موت کا منظر پھر گیا کیونکہ اسو قت ایک طوطے کا پر کہیں سے اڑتا ہوا اس کی جھولی میں آ گرا تھا۔ پاکستان میں جمہوریت کی حالت بھی اسی طوطے کی مانند ہے جس کو پسندیدگی سے خریدہ جاتا ہے پھر پنجرے میں قید کر کے اس سے دل بہلایا جاتا ہے اور جب وہ سچ بیان کرنے لگے تو سزا پاتا ہے۔ اب آپ پاکستان کے موجودہ حالات ہی دیکھ لیں آپ جمہوریت میں سو سو خامی نکالنے والوں سے پوچھ لیں کہ اس کا متبادل کیا ہے تو ان کا صرف ایک ہی جواب ہو گا کہ ہماری پسند کا لیڈر ورنہ کچھ نہیں۔ یعنی وہ اپنی پسندیدگی کو برسراقتدار لانے کی غرض سے رائے عامہ کا گلا گھونٹنے سے قطعاً پرہیز نہیں کرتے۔ اخلاقی گراوٹ اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جب نوازشریف علاج کی غرض سے لندن میں مقیم رہے تو یہ ثابت کرتے رہے کہ وہ کسی مرض کا شکار نہیں ہیں۔ اب ان کی اہلیہ ایک موذی مرض سے مقابلہ کر رہی ہیں مگر یہ ایک ہی دھن سنا رہے ہیں کہ یہ سب ڈرامہ ہے۔ حالانکہ ڈرامہ تو یہ تھا کہ 35 پنکچر والی بات کو خود الزام لگانے والوں نے تسلیم کرلیا کہ ایک سیاسی ڈرامے سے زیادہ اس کی حقیقت کچھ نہیں۔ ویسے طوطے کی کہانی سے ایک اور سبق بھی ملتا ہے کہ حقیقت چھپ نہیں سکتی۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین