اسلام آباد (تبصرہ / طارق بٹ) امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے صاف گوئی سے انکشاف نے مخلوط حکومت میں اتحادیوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دی ہے۔سراج الحق کے انکشاف نے ایک جانے پہچانے موقف کی توثیق کی ہے۔ سینیٹ چیئرمین کے انتخاب سے قبل وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک سے گفتگو کی بنیاد پر امیر جماعت اسلامی کے انکشاف کے بعد تحریک انصاف دفاعی پوزیشن میں چلی گئ بلکہ سراج الحق کو مسلسل ہدف تنقید بنا رہی ہے۔ جماعت اسلامی پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ خیبر پختونخوا میں مخلوط حکومت سے علیحدہ ہوجائے۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے دلچسپ پلٹا کھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیلی فون پر سراج الحق سے گفتگو میں بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ کو ووٹ دینے کے لیے اوپر سے حکم کی بات ہوئی تو اس کا مطلب بنی گالا میں عمران خان کی معروف رہائش گاہ تھی۔ تحریک انصاف کے شدید رد عمل اور حملوں کے باوجود سراج الحق اپنے موقف پر قائم ہیں۔ بلکہ انہوں نے تو یہاں تک مطالبہ کردیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اور چیف الیکشن کمیشنر تمام سینیٹرز کو طلب کرکے اس معاملے میں ان سے حلف لیں۔ امیر جماعت اسلامی کے دعوےکے بعد معزول وزیر اعظم نواز شریف کے پاس آئندہ انتخابات میں عمران خان کو آڑے ہاتھوں لینے کے لیے پیشگی تیار ایشو موجود ہوگا تاہم یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی خیبر پختون خوامیں مخلوط حکومت سے باہر نہیں آئی 2014میں جب عمران خان نے اسلام آباد میں اپنا معروف زمانہ دھرنا دیا تھا۔ جماعت اسلامی نے اس سے مسلسل فاصلہ اختیار کئے رکھا۔حالیہ سینیٹ انتخابات میں دونوں جماعتوں نے مختلف اتحادوں کو ترجیح دی۔ جماعت اسلامی نے مسلم لیگ (ن) اور اے این پی کے ساتھ مل کر انتخابات لڑا۔ جماعت اسلامی اپنا ایک سینیٹر منتخب کرانے میں کامیاب رہی جبکہ تحریک انصاف کو دو نشستوں سے محروم ہونا پڑا۔ جس پر عمران خان نے اپنے 20ارکان اسمبلی کو پارٹی سے خارج کردیا۔