اسلام آباد (رپورٹ:رانامسعود حسین) عدالت عظمیٰ نے جیو ٹیلی ویژن چینل کے رپورٹروں اور تجزیہ نگاروں کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی سےمتعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جیو نیوز کے اینکر پرسن حامد میر کی سربراہی میں متاثرہ ملازمین اور جیو انتظامیہ کے دو دو افراد پر مشتمل5رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم جاری کرتے ہوئے فاضل کمیٹی سے تین روز کے اندر اس مسئلہ کے حل پر مبنی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ عدالت نےجنگ جیو میڈیاگروپ کے سربراہ میرشکیل الرحمن کوتنخواہوں کی ادائیگی کیلئے تین ماہ کی مہلت دینے سے انکارکردیا، جبکہ پر اسرار ہاتھوں کی جانب سے جیوچینل کے نمبر آگے پیچھے کرنے کی شکایت پر جیو انتظامیہ کے وکیل کو اس حوالے سے نئی آئینی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی ہے۔ دوران سماعت میر شکیل الرحمان نے عدالت کو بتایا کہ ہماری صورت حال ایسی ہے کہ گن پوائنٹ پر لوٹا جارہا ہے، ان حالات میں تنخواہیں کیسے دیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے پیر کے روز ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے میر شکیل الرحمان کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کہ میر صاحب ماشا اللہ آپ کااتنا بڑامیڈیا ہائوس ہے ، آپ کے الیکٹرانک میڈیا کے ورکروں نے شکایت کی ہے کہ انہیں تنخواہیں نہیں مل رہیں، ہم نے میڈیا کارکنوں کی تنخواہوں کے حوالے سے ایک جنرل آرڈر پاس کیا ہے ،یہ تو حق زندگی ہے ،حدیث شریف ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اسکی اجرت ادا کر دو، کیا وجہ ہے کہ آپ ابھی تک اپنے کارکنوں کو تنخواہیں اد ا کیوں نہیں کرسکے ؟ جس پر میر شکیل الرحمان نے کہا کہ میں اپنے ساتھیوںسے اس پر بہت شرمندہ ہوں،کہ میرا ادارہ جیوانہیں تاحال تنخواہیں ادا نہیں کرسکا ، ہر لحاظ سے میرا فرض بنتا ہے ،کہ انہیں ان کا حق وقت پر ملے ، ساتھ ہی یہاں طلبی کے باوجود حاضر نہ ہونے پر بھی معذرت چاہتا ہوں، میرے لئے عزت کا مقام ہے کہ فاضل ججز مجھے یاد کریں اورمیں دل سے یہاں پر حاضر ہو جائوں ، کچھ وجوہات تھیں جو حاضر نہیں ہو سکا ،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر عدم ادائیگی کہ وجہ آگے سے آپ کو رقم کا نہ آنا ہے تو ہم ایک اجتماعی حکم جاری کردیتے ہیں، صرف آپ کے ادارہ کی حد تک نہیں بلکہ سارے چینلز کیلئے ،انہوںنے کہا کہ چونکہ آپ کا ادارہ ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے، اس لئے ہم شروعات اس سے کرناچاہتے ہیں،میر شکیل الرحمان نے کہا کہ حکومت نے ہمارا پیسہ دینا ہے ، جیسے ہی نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی آئے ہیں ہمارے اشتہارات بند کردیئے گئے ہیں، خیبر پختونخوا حکومت نے بھی ہمارے اشتہارات بند کئے ہیں، مین وجہ یہی ہے کہ جیو چینل متعدد بار بند ہوتا رہا ہے ، ہماری ریونیو اسکیم متاثر ہوئی ہے ،حامد میر پر حملہ کے بعد4سال میں ہمارا بہت نقصان ہوا ہے ،اسکی مختصر وجوہات آپ کے سامنے ہیں، اب آپ جو فیصلہ کریں ہر پہلو آپ کے سامنے ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کے الیکٹرانک میڈیا کے ورکروں کی کل ماہانہ تنخواہ کتنی بنتی ہے تو میر شکیل الرحمان نے کہا کہ غالبا 25کرور روپے بنتے ہیں، جس پر فاضل جج نے مزید استفسار کیا کہ جیو کا کل ماہانہ ریونیوکتنا آتاہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کاروبار میں خسارہ بھی ہوتا رہتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تنخواہیں ہی ادا نہ کی جائیں،اگر تنخواہ نہیںا دا کریں گے تو انکے گھروں کے چولہے کیسے جلیں گے؟کسی طرح تو پورا کرکے دینا ہے ،اس طرح کے بحران میں بعض مالکان نے جائیدادیں بیچ کر اپنے کارکنوں کو ادائیگیاں کی ہیں،ہم آپ سے بھی ایسی ہی توقع رکھتے ہیں، آپ اپنے کارکنوں کو ادائیگی کے حوالے سے کوئی ٹائم فریم دیں ،جس پر میر شکیل الرحمان نے کہا کہ ہم نے بھی بہت سے قرضے لے رکھے ہیں، ہماری جائیدادیں بھی گروی ہیں، چھوٹی چھوٹی جائیدادیں ہیں، جب سے آپ نے از خود نوٹس لیا ہے اس وقت سے اب تک 78فیصدادائیگیاں ہو چکی ہیں، ہمیں دو تین ماہ کی مہلت دے دی جائے ہماری کوشش ہوگی کہ ہم اس دوران بھی ادائیگیاں کرتے رہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے دیگر اداروں کو بھی 30اپریل تک کی مہلت دے رکھی ہے ،آپکے پاس بھی یہ مہلت تھی اور اب آپ مزید دو تین ماہ مانگ رہے ہیں، اگر ان کارکنوں کے بچوں کے سکولوں کی فیسیں ادا نہ کی گئیں تو اسکول والے انہیں نکال دینگے ، ڈاکٹر کی فیس ہوتی ہے،میڈیکل اسٹور والا انہیں ادھار ادویات تو نہیں دے گا؟ آپ انکے کفیل ہیں ،اللہ نے آپ کو ان کا کفیل مقرر کیا ہے ،آپ انکی کفالت فرمائیں ،جس پر میر شکیل ا لرحمان نے کہا کہ میں آپکے ایک ایک لفظ کی قدر کرتا ہوں ،لیکن جب منافع ہی نہیں ہوگا تو ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپکے ادارے کو کہاں کہاں پر بند کیا گیا ہے؟آپ درخواست دائر کریں ، اگر کوئی آپکے چینل کے نمبروں کوآگے پیچھے کردیتے ہیں تو ہم کوئی مداخلت نہیں کرسکتے،لیکن چینل چلانا آپ کا بنیادی حق ہے، کوئی آپ کے چینل کو زبردستی بند نہیں کرسکتا۔ اٹارنی جنرل کو بلوا کر ان سے پوچھ لیتے ہیں، لیکن آپ چاہے بھیک مانگیں، چاہے ادھار لیں میں تیسر الفظ نہیں کہتا کہ چاہے ڈاکہ ماریں، انکی تنخواہیں ادا کریں،جس پر میر شکیل الرحمان نے کہا کہ میں نےتو اس کیلئے بھیک بھی مانگی ہے اور ادھار بھی لیا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر حکومت نے اشتہارات دینے کی پالیسی ہی بدل دی ہے تو ہم اس میں تو کوئی مداخلت نہیں کرسکتے، لیکن آپ کے بقایا جات کے حوالے سے حکومت سے جواب طلب کرلیتے ہیں۔ جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا کہ آپ کا چینل صرف حکومتی اشتہارات تک ہی محدود تو نہیں ، نجی اشتہارات بھی تو لے رہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب ہم نے سیاسی شخصیات اور حکوتی عہدیداروں کی تصویر والے اشتہارات کی حد تک پابندی عائد کی تو اے پی این ایس اور سی پی این ای والے بہت خوش ہوئے تھے،اگر کوئی حکومت یا ادارہ آپ کو اشتہارات جاری نہیں کررہا تو اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا،آپکے پاس متبادل مالیاتی پروگرام بھی ہونا چاہیے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ آپکے ساتھ بڑے میر صاحب(میر خلیل الرحمان) کا نام جڑا ہوا ہے،آپکے رپورٹرز اور پروڈیوسرز بہت مایوس ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں کہ اب یہ صحافت کو چھوڑ کر منیاری یا پان بیچنے کی دکان بھی نہیں کھول سکتے، میر صاحب کے ادارے میں پلے بڑھے ہیں یہی ہمارے باپ جیسے ہیں، میر شکیل الرحمان نے کہا کہ اس مسئلہ کے حل کیلئے کوئی کمیٹی بنا دی جائے تو شاید یہ معاملہ حل ہو جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک آپ باپ اور کفیل والا کردا ر ادا نہیں کرینگے، مسئلہ حل نہیں ہوگا ،یہاں پر تو صرف طوالت کیلئے کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ، اسی وجہ سے ہم تو آجکل کمیٹی تشکیل دے کر اسے شام 7بجے تک رپورٹ پیش کرنے کا کہتے ہیں، چیف جسٹس نے حامد میر کو کہا کہ کیا آپ اس میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ؟تو انہوںنے کہا کہ میں ادارے کا مستقل ملازم نہیں ، اسلئے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا ، چیف جسٹس نے ان کی معذرت قبول نہیں کی اورکہا کہ دونوں جانب سے دو دو بندے لے لیتے ہیں، مجھے میر شکیل الرحمان پر پورا بھروسہ ہے ،یہ سب کو پورا تول کردیں گے ،یہ معاملہ صرف میر شکیل الرحمان کی حد تک نہیں ، ان سے صرف شروعات کی جارہی ہے ، یہ ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے ، جس پر میر شکیل الرحمان نے کہا کہ بڑا ادارہ قرضے لے لے کر چلایا جارہا ہے ، ہمارے چینل کے نمبروں کو ڈسٹرب کردیا جاتا ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے ابھی تک اس حوالے سے آپ کی کوئی درخواست پیش نہیں ہوئی ،تنخواہوں کے معاملہ پرتو حامد میر کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی بنا دیتے ہیں،جس پر میر شکیل الرحمان نے کہا کہ کیا ہمارے چینل کے نمبروں میں گڑ بڑ کے معاملہ پر بھی از خود نوٹس ہو سکتا تو فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو اب از خود نوٹس لینا ہی چھوڑ رہا ہوں، آپ لوگوں نے ہی اخبارات میں لکھ لکھ کر مجھے مجبور کردیا ہے ،جو از خود نوٹس لے چکا ہوں، انہیں ہی مکمل کررہا ہوں ، اب سوشل ایکٹیوسٹس درخواستیں دائر کریں، میرشکیل الرحمان نے کہا کہ آپ نے کہا ہے کہ جس نمبر پر چینل چل رہا ہوتا ہے وہ اس کا حق نہیں ہوتا ،حالانکہ ایسا نہیں،اس حوالے سے قانون موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے صرف سوال اٹھایا ہے، چینل کو ایک سے دوسرے نمبر پر منتقل کرنے کے حوالے سے، جس پر میر شکیل الرحمان نے کہا کہ آپ کے ریمارکس تمام چینلز کیلئے مسئلہ بن جائیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے یہ سوال کیا ہے کہ کسی مخصوص نمبر پر آپ کے چینل کو چلانا کیا آپ کا حق ہے۔ جس پر جیو نیوز کے وکیل نے کہا کہ یہ قانون بھی ہے اور اس پر لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔ بعد ازاں عدالت نے حامد میر کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم جاری کیا جوتین روز کے اندر اس مسئلہ کے حل کیلئے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کریگی۔ چیف جسٹس نے اپنے اسٹاف کو کمرہ عدالت میں نصب ملٹی میڈیا اسکرین کو سمیٹنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہم میر صاحب کو کچھ دکھانا چاہتے تھے۔ لیکن اب نہیں دکھائیں گے۔ وران سماعت فاضل عدالت نے عظیم چوہدری نامی جنگ کے ایک سابق ملازم کی بقایاجات کی ادائیگی کی درخواست پرانہیں بھی فاضل کمیٹی سے رجوع کرنے کی ہدایت کی جبکہ بابر ستار کو آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت درخواست دائر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت تین روز کیلئے ملتوی کردی۔