مدینہ منورہ کی خوب صورت، حسین، روح پرور، شبنمی رات کا ایک پہر گزرچکا ہے۔ شعبان المعظم کی پندرہویں شب کا روشن اور پورا چاند اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جھلملاتے چمک دار ستاروں کے جھرمٹ میں دنیائے عرب کے شفّاف نیلے آسمان پر رونق افروز ہے، جس کی سنہری کرنوں نے مسجد نبویؐ سمیت پورے شہرِ مدینہ کو منور کر رکھا ہے۔ آج خلافِ معمول آسمانوں پر بھی بڑی چہل پہل ہے۔ امام الانبیاء، رحمتِ دوجہاں، سرورِ کائنات، حضور رسالت مآب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، امّ المومنین، سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کے حجرے میں محوِ استراحت ہیں۔ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت آہستگی سے بستر سے اٹھتے ہیں۔
محتاط انداز میں دروازے کی جانب قدم رنجہ فرماتے ہیں، اس بات کا خیال ہے کہ کہیں اہلیہ محترمہ سیدہ عائشہؓ کی نیند میں خلل واقع نہ ہو، آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر تشریف لے جاتے ہیں۔ دروازہ کھلنے کی آہٹ سے امّاں عائشہؓ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو باہر جاتے دیکھتی ہیں، تو ایک لمحے کو سوچ میں پڑ جاتی ہیں، پھر جلدی سے اپنی چادر اوڑھ کرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تشریف لے جاتی ہیں۔ تجسّس ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے اس پہر کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ جنّت البقیع کی جانب ہے، اور کچھ ہی دیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنّت البقیع میں داخل ہوجاتے ہیں۔
امّاں عائشہؓ آپ کے پیچھے جنّت البقیع کے دروازےتک پہنچتی ہیں، تو دیکھتی ہیں کہ شاہِ دوجہاںؐ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے حضور دعاگو ہیں۔ دعا سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹتے ہیں۔ امّاں عائشہؓ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس ہوتے دیکھ کر، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے اپنے بستر پر آکر لیٹ جاتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لاتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ سیّدہ عائشہؓ بستر پر دراز ہیں اور سانس پھولی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’اے عائشہؓ کیا بات ہے؟ تم گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟‘‘ امّاں عائشہؓ خاموش رہتی ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’عائشہ! اگر تم نہیں بتائوگی، تو لطیف و خبیر (اللہ) مجھے بتادے گا۔‘‘ یہ سن کر سیّدہ عائشہؓ فرماتی ہیں ’’یارسول اللہ ؐ ! میں یہ (بشری تقاضے کے تحت) سمجھی کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور زوجہ مطہرہؓ کے حجرئہ انور میں تشریف لے جا رہے ہیں۔‘‘ یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری حق تلفی کریں گے۔
بات یہ ہے کہ جبرائیل امینؑ میرے پاس آئے تھے، جنہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع قبرستان جائیں اور وہاں مدفون لوگوں کے لیے استغفار کریں۔ میں نے تمہیں جگانا مناسب نہ سمجھا کہ تم گھبرا جائوگی۔‘‘ (صحیح مسلم، ترمذی، مسندِاحمد)
’’شعبان‘‘ اسلامی قمری مہینوں میں آٹھواں مہینہ ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔‘‘ شعبان کے حوالے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس مہینے کی عزت و بزرگی، قدر و منزلت اور عظمت و بلندی کے لیے کافی ہے۔حضور نبی کریمؐ ماہِ رجب کا چاند دیکھ کر دعا فرمایا کرتے تھے۔ ترجمہ:’’اے اللہ! رجب اور شعبان میں ہمارے لیے برکت پیدا فرما اور خیر اور سلامتی کے ساتھ ہمیں رمضان تک پہنچا۔‘‘ علماء اس دعا کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرما کہ ہم ماہ رمضان المبارک کا استقبال اس کے شایانِ شان، نہایت عزت و احترام کے ساتھ کریں۔
جلیل القدر تابعی حضرت عطا بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ ’’لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے زیادہ کوئی رات افضل نہیں۔ اس شب کو ’’شبِ برات‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اسے ’’لیلۃ البراۃ‘‘ بھی کہتے ہیں یعنی جہنم سے نجات کی رات، برات کی رات، مغفرت کی رات۔ یہ رات شعبان کی چودہ تاریخ کو سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے اور دوسرے روز صبح صادق تک برقرار رہتی ہے۔امّ المومنین، سیّدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ’’بلاشبہ، اللہ تبارک وتعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب کوآسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کی مغفرت فرمادیتا ہے۔‘‘ (ترمذی) اس زمانے میں عرب میں قبیلہ بنوکلب کے پاس سب سے زیادہ بکریاں تھیں، جو اپنے کثیر بالوں کی وجہ سے مشہور تھیں، چناں چہ جس طرح بکریوں کے بالوں کا شمار نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ شب برات میں اپنے بے شمار بندوں کی بخشش فرماکر انہیں جہنّم سے نجات عطا فرماتا ہے۔
حضرت علی مرتضیٰؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’جب شعبان کی پندرہویں شب آئے، تو اس رات قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو، کیوں کہ اس رات غروبِ آفتاب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی خاص تجلّی اور رحمت پہلے آسمان پر اترتی ہے اور رب کریم اپنے بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ’’ کوئی ہے، جو بخشش کا طلب گار ہو، اور میں اسے بخش دوں، کوئی ہے، جو کشادگیِ رزق کا خواست گار ہو، اور میں اسے رزق عطا کردوں، کوئی ہے، جو مصیبت میں مبتلا ہو، اور میں اسے مصیبت سے نجات دوں، کوئی ہے، جو صحت و تن درستی کا طلب گار ہو، اور میں اسے شفائے کاملہ عطا کروں۔‘‘ اس طرح اللہ جل شانہ تمام حاجت مندوں کا ذکر فرما کر انہیں اپنی طرف متوجّہ کرتا ہے اور یوں غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق تک اللہ کی رحمت اپنے بندوں کو پکارتی رہتی ہے۔ (سنن ابنِ ماجہ)۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے مشرک، کینہ پرور، قطع رحمی کرنے والا، والدین کا نافرمان، شرابی اور زانی مرد و عورت۔‘‘ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ’’گناہ کبیرہ میں مبتلا افراد، یتیموں، مسکینوں کا حق غصب کرنے والے، والدین، بہن بھائیوں اور رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والے، رشوت لینے اور دینے والے، ناجائز دولت سمیٹنے اور سود کھانے والے، گانے بجانے، موسیقی کے دل دادہ، بے حیائی و فحاشی پھیلانے والے مرد و عورت، ظلم و زیادتی کرنے والے، جادوگر، کاہن، نجومی اور جوا کھیلنے والے، پڑوسیوں اور لوگوں کو ناحق پریشان کرنے والے، ٹخنوں سے نیچے لباس رکھنے والے مرد، غیبت، بہتان اور جھوٹ بولنے والے بدنصیب افراد اس بابرکت رات میں اللہ کے انعام و اکرام اور رحمتوں کے فیضان عام سے محروم رہیں گے، اِلاّ یہ کہ وہ نیک نیتّی کے ساتھ اللہ سے سچّی توبہ کرلیں اور آئندہ ان گناہوں سے دور رہنے کا وعدہ کرلیں۔
شب برات میں پروردگارِ عالم مغرب سے صبح فجر تک پہلے آسمان پر نزول فرماتا ہے اور حاجت مندوں، ضرورت مندوں، بخشش اور معافی کے طلب گار لوگوں کا منتظر رہتا ہے۔ فرشتے صدائیں بلند کرتے ہیں کہ ’’ہے کوئی، جو آج اللہ کی رحمتوں سے فیض یاب ہو، ہے کوئی، جو اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر معافی کا طلب گار ہو۔‘‘شب ِبرات گناہوں پر ندامت، اعترافِ بندگی اور دعائوں کی قبولیت کی بابرکت رات ہے۔ کون جانے، اگلے سال یہ عظمت اور بزرگی والی رات اور یہ انمول ساعتیں نصیب بھی ہوتی ہیں یا نہیں۔
چناں چہ ان قیمتی لمحات کو اپنے لیے قدرت کا انعام سمجھتے ہوئے خود کو شرمندگی کے بہتے اشکوں کے نذرانے کے ساتھ اپنے رب کے حضور پیش کرکے اس مقدّس رات کو غنیمت جانتے ہوئے، اپنے رب سے وہ سب کچھ مانگ لیں، جس کے خواہش مند ہیں۔ قرآنِ کریم کی سورۃ الدّخان میں اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اس رات ہر حکمت والے کام کا ہمارے حکم سے فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔‘‘ مفسرین نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس رات پور ے سال کا حساب کتاب ہوتا ہے، یعنی بندوں کا رزق، ان کی اموات و پیدائش کے امور، بیماری وتن درستی، راحت و تکالیف، حالات و واقعات، فراخی و تنگ دستی، غرض یہ کہ تمام جملہ امور کے احکامات الگ الگ لکھ کر تقسیم کردیئے جاتے ہیں اور ہر فرشتے کو اس کا کام سونپ دیا جاتا ہے، جس کی روشنی میں وہ سال بھر کے ہر ہر لمحات میں نہایت سختی سے عمل پیرا رہتے ہیں۔
حضرت عطار بن یسارؒ بیان فرماتے ہیں کہ ’’شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک فہرست ملک الموت کو دے دی جاتی ہے اور اسے حکم دیا جاتا ہے کہ جن لوگوں کے نام اس فہرست میں درج ہیں، ان کی روحوں کو قبض کرنا ہے۔ حالاں کہ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بندہ باغ میں پودا لگا رہا ہوتا ہے، کوئی شادی بیاہ میں مصروف ہوتا ہے، کوئی مکان کی تعمیر میں، جب کہ ان سب کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اس کیفیت کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’بہت سے لوگوں کے کفن تیار ہو چکے ہوتے ہیں، مگر وہ ابھی تک بازاروں میں خریدوفروخت میں مصروف اور اپنی موت سے غافل ہوتے ہیں، بہت سے لوگوں کی قبریں تیار ہوچکی ہوتی ہیں، مگر ان میں دفن ہونے والے غفلت سے خوشیاں مناتے پھر تے ہیں، بہت سے لوگ ہنستے اور خوشیاں مناتے پھرتے ہیں، حالاں کہ وہ بہت جلد ہلاک ہونے والے ہیں۔‘‘ (غنیۃ الطالبین)حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ’’میں نےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماہِ رمضان کے علاوہ ماہِ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔‘‘ (صحیح بخاری/صحیح مسلم) لہٰذا شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا مستحب و مستحسن امر ہے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ’’ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے، نماز شروع کی اور جب سجدے میں پہنچے، تو سجدہ اتنا طویل ہو گیا کہ میں پریشان ہو کر اٹھی اور پاس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انگوٹھے مبارک کو حرکت دی، جس سے مجھے اطمینان ہو گیا اور میں اپنی جگہ لوٹ آئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے عائشہؓ! تم جانتی ہو کہ یہ کون سی رات ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی خوب جانتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’یہ نصف شعبان کی رات ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اس رات خاص طور پر دنیا کی جانب توجّہ فرماتا ہے اور مغفرت مانگنے اور رحم کی دعا کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے۔‘‘حضرت ابو اسامہؓ سے مروی ہے کہ’’ پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ رجب کے مہینے کی پہلی رات، نصف شعبان کی رات، جمعے کی رات، عیدالفطراور عیدالاضحی کی رات۔‘‘ شعبان المعظم کی پندرہویں شب کو قبرستان جانا اور اپنے مرحوم والدین، عزیز و اقارب، دوست و احباب اور دیگر جملہ مومنین کی قبروں پر فاتحہ پڑھنا، ایصالِ ثواب کرنا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔ البتہ خواتین کا قبرستان جانا منع ہے۔ اسی طرح قبروں پر چراغاں کرنا، موم بتّیاں جلانا یا گھی کے چراغ جلانا سختی سے منع ہے،البتہ پھول، پانی یا کسی شاخ کی ہری ٹہنی ڈالی قبروں پر ڈالی جاسکتی ہے۔
ناپسندیدہ کاموں سے بچیں
شبِ برات کی رات شوروغل، پٹاخوں، آتش بازی، فائرنگ اور اس طرح کے دیگر گناہ کے کاموں سے اجتناب کریں۔ آتش بازی دولت کا زیاں اور جہالت کا مظاہرہ ہے، جس سے متعدد افراد زخمی اور اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جب کہ یہ رب کی ناراضی کا باعث بھی بنتی ہے۔ قبرستانوں میں قبروں پر موم بتّیاں، اگربتّیاں، گھی اور تیل کے چراغ جلانے سے اجتناب کریں، قبرستانوں میں قبروں پر آگ کا جلانا منع ہے۔
قبرستانوں میں نظم و ضبط کا خیال رکھیں، قبروں پر چڑھنا سخت گناہ ہے۔ اجتماعی شب بے داری کے دوران آپس میں بیٹھ کر گپ شپ لگانا، ہنسی مذاق اور دنیاوی باتیں کرنے سے اجتناب کریں۔
شبِ برات میں کرنے والے کام
شب برات میں توبہ و استغفار، ذکر و اذکار، مناجات و تسبیحات کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ تلاوتِ کلام پاک اور ادائیگی نوافل میں وقت گزاریں۔ مساجد میں اجتماعی شب بے داری میں شامل ہوں یا گھر پر انفرادی عبادت کریں۔ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اپنے رب کو راضی کرنے میں صَرف کریں۔ ذکر و اذکار کریں اور رات کی تنہائی میں اپنے رب کے آگے آنسو بہائیں، گڑگڑائیں، التجا و مناجات کریں۔
دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی حاجات کے لیے اپنے ہاتھوں کو اس کے آگے پھیلادیں، جب شرمندگی کے آنسو اور درد میں ڈوبی التجائیں رب کے دربار میں پہنچتی ہیں، تو اپنے بندوں سے بے انتہا محبت کرنے والا رب، اپنے فیوض و برکات، رحمتوں اور انعام و اکرام سے لبریز کردیتا ہے۔ شب برات کی رات قبرستان جاکر قبور زیارت کریں، اپنے مرحومین اور جملہ مومنین کی مغفرت کی دعا کریں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبورِ زیارت کا ایک مقصد یہ بھی بتایا ہے کہ اس طرح انسان اپنی موت کو یاد رکھتا ہے اور اسے یہ یاددہانی ہوجاتی ہے کہ جلد یا بدیر ایک دن اسے بھی یہاں آنا ہے۔ پندرہ شعبان کے روزے کے لیے سحری کا خصوصی اہتمام کریں کہ سحری کھانا سنّت ہے۔