• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گوری رنگت کیساتھ بکھرا ہوا صاف شفاف تروتازہ چہرہ،اجلا لباس ،چاندی جیسے بال جب بھی ملے یوں لگا کہ ابھی نہا دھو کر آئے ہیں بولے تو یوں لگے کہ گویا اتر پردیش کا لب ولہجہ سمٹ کر لاہور آ گیا ۔ماضی و حال کی ادبی تہذیبی عظمت پوری آب وتاب کے ساتھ ہمارے سامنے جلوہ افروز۔جدت و قدامت کا حسن ودلربا امتزاج،پروقار نظروں میں اپنے مخاطب کے لئے اپنائیت و احترام گویا اُن کا مستقل مزاج۔تیکھے خدوخال میں زیرلب ہلکی مسکراہٹ جیسے طرئہ امتیاز۔یہ بلند فکر ضلع بلندشہر سے آیا اور ساری زندگی انتظار حسین ہی کہلایا۔ 2فروری2016 ءکی سہ پہر 3بجے کے بعد افتخارمجاز کا پیغام آیا کہ جنا ب انتظار حسین چلے گئے دل افسردہ سا ہوگیا کہ ہم اُن کے پاس رہ کے بھی پاس نہیں تھے زیادہ وقت ان کے ساتھ کیوں نہ گزرافوراً ان کے گھر کی راہ لی وہاں انکے معاصرین تھے بالخصوص نیر علی دادا صاحب ،امجد اسلام امجد، خورشید رضوی ،ایرج مبارک ،ارشاد نقوی ، ڈار صاحب اُن کے بھانجے اور بھانجیاں تھیں اور سب سے بڑھ کر اُن کی ہمشیرہ محترمہ جو ان کی تصویر لگ رہی تھیںاُنکی یادیں اور باتیں تھیں ،ناچیز ذاتی طور پر محترم نیر علی داداکا ہمیشہ احسان مند رہیگا ،جن کی وساطت اور برکت سے نیرنگ گیلری میں وہ خوب صورت لمحات میسر رہے جہاں ہم سب جناب انتظارحسین کی میٹھی ادبی باتوں اور مختلف النوع کے تبصروں یا جائزوں سے مستفید ہوتے تھے ۔جب وہ لیٹ ہوتے تھے تو سب کو ان کا انتظار رہتاتھا ۔ناچیز کو چند مواقع پر اُن کی ڈرائیوری کا بھی شرف حاصل ہوا یوں ہلکی پھکی دل لگی اور اپنائیت کا اپنا ہی مزا ہوتا ۔اُن کا ہر فقرہ ادبی چاشنی کا حامل محسوس ہوتا ۔کچھ عرصہ قبل جب انہیں چوٹ آئی تو کچھ نقاہت ہوئی یا انہیں بیڈ پر رہنا پڑا ۔ورنہ وہ تھے ہر وقت چاق و چوبند Active smartتھکن نام کی چیز شاید ان کے پاس سے بھی نہ گزری کبھی محفلوں میں کبھی لارنس گارڈن میں واک کرتے پائے جاتے ۔کام کی دھن ان پر یوں سوار تھی کہ شادی کی عمر بھی گزار دی پیدا ہوئے تھے دسمبر 1923 میں اور شادی 1966ء میںوہ بھی اپنے بھانجے حسن ظہیرکے اصرار پر ،جوسرکاری آفیسر تھے اور اپنے ایک کو اے جی رضا کی بیٹی سے ان کی شادی کروادی۔جن سے جناب انتظار حسین کی رفاقت کوئی 38سالوں پر محیط رہی لیکن کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔فیملی ڈبائی سے ہاپٹر منتقل ہو گئی تو ہاپٹر ہا ئی اسکول کی نویں کلاس میں داخل کروا دئیے گئے یوں میٹرک وہیں سے کیا ہاپٹرا سکول میں سوائے ایک کے تمام اساتذہ ہندو تھے پھر میرٹھ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد 1946 میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1947ء کے آخر میں ان کی عمر 24 سال کے لگ بھگ تھی جناب انتظار حسین اپنی فیملی کے ہمراہ دلی سے پرواز کرتے ہوئے لاہور وارد ہوئے۔
یہاں ابتدا میں ان کا قیام سنت نگر میں رہا پھر جامعہ اشرفیہ اور منبر کے بیچ (عربینِ ڈپلائش کے قریب ) واقع ایک مکان میں رہے بعد ازاں کافی عرصہ 67-d رحمٰن پورہ میں گزارا اور بالآخر شادی کے بعد ہائوس بلڈنگ سے قرضہ لیتے ہوئے جیل روڈ پر واقع بیگم کے پلاٹ پرگھر تعمیر کیایوں بقیہ زندگی یہیں بسر کر دی۔ اس حوالے سے ہماری جناب عطاء الحق قاسمی اور جناب مجیب الرحمٰن شامی اور جناب شعیب بن عزیز کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس مکان کو حاصل کرتے ہوئے سرکاری طور پر انتظار لائبریری یا میوزیم بنا دیا جائے جس میں ان سے متعلقہ تمام اشیاء مسودے اور کتابیں محفوظ ہو جائیں نیز ان کی تحریروں پر مستقبل میں جو کام ہو وہ بھی بتدریج اس کا حصہ بنتا جائے۔ اس کاوش کی برکت سے نئی نسلیں اپنے دور کے سب سے بڑے ادیب اور افسانہ نگار کی خدمات سے مستفید ہو سکیں گی۔’’انتظار فائونڈیشن‘‘ کے تحت ایک ادارہ بنایا جا سکتا ہے جو ان کے قریبی احباب ، عزیزوں اور متذکرہ بالا شخصیات پر مشتمل ہو ۔ جناب انتظار حسین کا قریباََ سات دہائیوں تک اردو ادب کی خدمت کے حوالے سے جو مقام ہے وہ غیر متنازع ہے پاکستان میں مہاجرت کے بعد انھوں نے پیہم اردو ادب کی اتنی خدمت کی ہے کہ آج وہ پوری اردو شناس دنیا میں وطنِ عزیز کی پہچان اور ہم سب کے لئے وجہ افتخار بن گئے ہیں۔۔ زندگی میں ان کی توجہ کبھی کسی مالی منفعت کی طرف نہیں گئی سرکاری ملازمت ملی تو وہ بھی مزاج کے بر عکس ہونے پر چھوڑ دی مہاجرت کے باوجود کوئی کلیم نہیں کیا کہیں کوئی پلاٹ نہیں لیا۔ زندگی بھر لکھنا پڑھنا ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ روز نامہ امروز، آفاق اور پھر مشر ق کے ساتھ وابستہ رہ کر ’’لاہور نامہ‘‘تحریر فرماتے رہے حلقہ ارباب ِذوق کی ادبی و تخلیقی سرگرمیوں میں مشغول رہے ماہنامہ’’ ادب لطیف‘‘ کی ادارت بھی کی۔جناب انتظار حسین کی افسانوی شہرت کا باعث تو ان کے وہ دلچسپ افسانے ہی تھے جو خیالات کی منظر نگاری، کہانی کی چاشنی کے ساتھ غیر محسوس انداز میں مقصدیت یا اصل مدعا بھی بیان کرتے چلے جاتے ہیںاور اپنے قاری پر مقصدیت ٹھونسنے سے قطعی اجتناب برتتے صاف دکھائی دیتے ہیں مثال کے طور پر ہر دلِ درد مند کی طرح ایٹمی تباہ کاریوں سے وہ کیسے لا تعلق رہ سکتے تھے۔1998 ءمیں جو ایٹمی دھماکے کیے گئے ان پر وہ کتنے دکھی ہوئے ہو نگے یہ ظاہر ہے اپنے اس کرب کو وہ ’’مورنامے ‘‘میں راجستھان کے موروں سے جوڑتے ہیں پھر وہ اپنے ڈبائی کے موروں کو یا د کرتے ہیں ادریوں کہانی کو مہابھارت تک لے جاتے ہوئے کوروں اور پانڈوں کی لڑائی کا منظر نامہ پیش کرتے ہیں یوں وہ ہر دو ممالک اور ان میں بسنے والے عوام کو یہ پیغام دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے۔ انتظار حسین کے افسانے ہوں یا ناول یا ادبی شہپاروں کے تراجم ادبی حلقوں کی نسلوں کو انہوں نے اپنی لپیٹ میں لئے رکھا ہے اردو اور انگریزی میں ان کی کالم نگاری کے اپنے اثرات ہیں انکے علاوہ مختلف کتب پر انھوں نے جو پیشِ لفظ دیباچے یا فلیب وغیرہ لکھے ہیں وہ بھی دلچسپی کے حامل اور حقائق کا درست ادراک و بیان ہیں۔
تازہ ترین