اسلام آباد( محمد صالح ظافر) سابق وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو کم کرنے کا فیصلہ تباہ کن قرار دیدیا ہے اور ایمنسٹی اسکیم کو غلط وقت پر کیا گیا ایسا فیصلہ قرار دیا ہے جس کے بعد پاکستان کا جی ٹوئنٹی ممالک میں 2030 تک شامل ہونا معجزہ ہی ہو گا اور یہ خواب پورا ہوتا اب نظر نہیں آرہا۔ لندن سے ایک میڈیا انٹرویو میں منگل کی شب انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر کم کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا یہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے، پاکستان میں بعض امیر ترین افراد کی لابی کافی عرصے سے روپے کی قدر کم کرنے کے لئے تبلیغ کرتی آئی ہے،ایمنسٹی اسکیم کے اجراء کے لئے یہ وقت موز وں نہیں تھا اس سے مستحکم اور ہموار معاشی عمل پٹڑی سے اتر گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا نے پاکستان کی معیشت کو تسلیم کیا ہے کہ چار سال میں اسے بلند پیداواری کی جانب چلا دیا گیا جو قبل ازیں دیوالیہ ہونے جا رہی تھی۔ سینیٹر اسحاق ڈار جو وفاقی کابینہ میں وزیر بے محکمہ ہیں کہا کہ پاکستان میں چند امیر ترین افراد اور ایک مفاد پرست لابی کے علاوہ بعض غیر ملکی ادارے پاکستان کرنسی کی قدر کو گرانے کے درپے رہے ہیں جن کی میں نے ہمیشہ مزاحمت کی ہے انہوں نے انکشاف کیا کہ 28جولائی کے بعد اکتوبر کے آخر تک چار ایسے اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوئے تھے جن میں یہ تجویز باضابطہ طور پر زیر غور لائی گئی تھی کہ ملکی روپے کی قدر کو گرا دیا جائے ہر مرتبہ میرے دلائل کے بعد اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا کہ روپے کی قدر کم نہیں کی جائے گی یہ اجلاس وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں ہوئے اور ان میں مفتاح اسماعیل، علی جہانگیر صدیقی اور فواد حسن فواد بھی موجود تھے۔ ملکی اقتصادی صورت حال کے بارے میں دل گرفتہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ معیشت کو چار سال میں بلند پیداواری شرح پر لے جانے کا مقصد تھا کہ ملک سے غربت ختم ہو روزگار میں اضافہ ہو، افراط زر کم ہو اور پیداوار بڑھے۔ دنیا بھر کی ایجنسیاں دسمبر2017تک یہ تسلیم کر رہی تھیں کہ پاکستان کی حیثیت ہموار اور مستحکم ہے۔ روپے کی قدر کم کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا یہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے اس کی وجہ سے افراط ِ زر کی شرح میں اضافہ ہو گا۔ اشیا کی پیداواری لاگت بڑھے گی ایک ہی جھٹکے سے قرضوں کی مالیت میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بتایا جائے روپے کی قیمت میں تیرہ روپے کی کمی سے کس قدر برآمدات میں اضافہ ہوا ہے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بعض امیر ترین افراد کی لابی کافی عرصے سے روپے کی قدر کم کرنے کے لئے تبلیغ کرتی آئی ہے وہ اب اپنے مفاد کیلئے کرنا چاہتے تھے۔ جن کی میں نے ہمیشہ مزا حمت کی حتیٰ کہ بعض بیرونی اداروں کے سربراہوں سے ان کے منہ پر بھی پاکستان کی کرنسی کی قیمت کم کرنے کی مخالفت کی جو پاکستان کو ایسا کرنے کیلئے کہتے تھے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ان اداروں نے وینزویلا جسے تیل سے مالامال ملک کی کرنسی کو گرا گرا کر اس کا برا حال کر دیا ہے ہمیں اس سے بچنے کی ضرورت تھی۔ انہوں نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا کہ اکیلے شاہد خاقان عباسی اس کے ذمہ دار ہیں انہوں نے بتایا کہ میں نے 12اپریل کو وزیراعظم عباسی کو باضابطہ خط ارسال کیا ہے جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ جون 2017میں ہم کہاں تھے اور اب کہاں کھڑے ہیں اس میں شاہد عباسی کو جو 2013میں سے وفاقی کابینہ میں میری سینئر کولیگ تھے بتایا کہ 2014میں افراط زر کی شرح بارہ فیصد تھی۔ جسے ہم پانچ فیصد پر لے آئے ہیں بعض بین الاقوامی ادارے ہماری ٹانگ کھینچنے کے لئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اگر روپے کی قدر کم کرنا معاشی مسئلے کا حل ہوتا تو وینزویلا کی معیشت کسمپرسی کا شکار نہ ہوتی۔ انہوں نے بتایا کہ 2016 میں آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریش اینڈ ڈیولپمنٹ (او ای سی ڈی) کار کن کابینہ کی منظوری سے بنوایا تھا تاکہ لوگوں کو بیرون ملک سے اپنے اثاثے اندرون ملک منتقل کرنے میں آسانی مل سکے۔