• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منگل کے روز مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) اور قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کے یکے بعد دیگرے منعقدہ اجلاسوں کے دوران وفاق اور صوبوں کے حقوق و اختیارات کے حوالے سے اتفاق و اختلاف کے مظاہر سامنے آئے۔ دونوں آئینی ادارے وطن عزیز کی وفاقی حیثیت کے تحفظ کا ذریعہ ہیں اور دنیا بھر کے وفاقی جمہوری نظاموں کی طرح مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو متعلقہ موضوعات پر رابطوں اور مشاورت کا ایسا میکنزم فراہم کرتے ہیں جس کے ذریعے اتفاق رائے سے اہم فیصلے کئے جاسکتے اور جن امور پر وفاق اور صوبوں کے درمیان یا وفاقی یونٹوں کے درمیان باہمی طور پرتحفظات پیداہوں انہیں سامنے لاکر مزید رابطوں کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں منعقدہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس نے وطن عزیز کی پہلی آبی پالیسی اور پاکستان واٹر چارٹر کی متفقہ طور پر منظوری دی جس سے واضح ہوگیا کہ آبی وسائل کے تحفظ، انفرااسٹرکچر اور حقوق و فرائض سے تعلق رکھنے والے امور پرتمام اسٹیک ہولڈرز اتفاق رائے رکھتے ہیں، موسمی تبدیلیوں اور آبی وسائل کی موجودہ صورت حال سمیت درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے سب ایک ہیں۔ اچھا ہوتا کہ اس معاملے پر کچھ پہلے توجہ دی جاتی تاہم اب وزیر اعظم اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے قومی واٹر پالیسی پر اتفاق کے لئے پاکستان واٹر چارٹر پر دستخط کئے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ پانی کی تقسیم، استعمال اور ذخیرہ کرنے سمیت تمام معاملات پر کسی تاخیر کے بغیر بھرپور توجہ دی جائے گی۔ منگل ہی کے روز وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت منعقدہ نیشنل اکنامک کونسل (این ای سی) کے اجلاس میں آئندہ مالی سال کے بجٹ اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کے حوالے سے سندھ، پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے اپنے تحفظات کے اظہار کے لئے جو واک آئوٹ کیا، وہ بھی جمہوری نظام کے مظاہر کا حصہ ہے۔ درحقیقت اس نوع کے اتفاق اور اختلاف جمہوریت کا وہ حسن ہیں جس میں سب اپنی اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے اور اتفاق رائے سے لائحہ عمل بناتے یا مل جل کر اختلافات کا حل نکالتے ہیں۔ این ای سی کے اجلاس سے واک آئوٹ کے بعد تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں جوکچھ کہا، اس کا لب لباب یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو آئندہ مالی سال کے لئے پورے سال کے ترقیاتی بجٹ اور اسکیموں کی منظوری کا کوئی اختیار نہیں۔ وزرائے اعلیٰ کا یہ موقف بھی تھا کہ تین صوبوں کے بائیکاٹ کے بعد قومی اقتصادی کونسل کا کورم ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ قومی اقتصادی کونسل کے کل 13؍ارکان ہیں جن میں سے 9؍ارکان اجلاس میں شریک تھے۔ تین صوبوں کے بائیکاٹ کے بعد اجلاس کے ارکان کی تعداد چار رہ گئی جن میں وزیر اعظم، مشیر خزانہ، وزیر منصوبہ بندی اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا نمائندہ شامل تھا۔ اس طرح اجلاس کا کورم ٹوٹ گیا۔ اس صورت میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کی منظوری دی گئی تو وہ غیرقانونی ہوگی۔ اس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے تین وزرائے اعلیٰ کی پریس کانفرنس میں سیاسی مقاصد کی نشان دہی کی۔ یہ دلیل اس بناء پر وزن رکھتی ہے کہ عام انتخابات کے پیش نظر ترقیاتی پروگرام کا سیاسی پہلو نمایاں ہوجاتا ہے جبکہ وفاق اور پنجاب میں برسراقتدار ایک پارٹی اور تین صوبوں کی دیگر حکمراں پارٹیاں حالات کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ اس بات کو بھی نظراندازنہیں کیا جاسکتا کہ چھوٹے صوبے عشروں سے مرکز سے اپنے اختیارات اور حقوق کے حوالے سے بعض مطالبات کرتے رہے ہیں جو جائز بھی ہیں۔ یہ اختلاف رائے اگر منفی رخ اختیار نہ کرے تو بلاشبہ صحت مندانہ ہے۔ تاہم وطن عزیز کو اس وقت جن داخلی و بیرونی مسائل کا سامنا ہے ان کا تقاضا ہے کہ معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی جائے اور موجودہ نظام کو ہر قسم کے بحرانوں سے بچاتے ہوئے چلنے دیاجائے۔ وقت کی نزاکت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے ہمارے سیاستدانوں کو احتیاط سے کام لینا اور جمہوریت کی روح کے مطابق مل جل کر مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔

تازہ ترین