رانا غلام قادر
ملک نئے انتخابی دنگل کی طرف بڑھ رہا ہے، موسمی پرندوںکی اڑان شروع ہوگئی ہے جانے والوں کو مطعون ٹھہرایا جارہا ہے اور آنے والوں کا خیرمقدم کیا جارہا ہے۔ سیاسی انجینئرنگ کی وجہ سے جماعتوں میں توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے سب کی نظریں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) پر ہیں جن کے خزاں رسیدہ پتے جھڑنا شروع ہوگئے ہیں۔ بلوچستان میں لگنے والی نقب یا شب خون سے زخم رسیدہ مسلم لیگ پر پے درپے وار ہو رہے ہیں۔ چیئرمین سینٹ کے الیکشن اور کئی ممبران اسمبلی کے داغ مفارقت کے بعد پارٹی کے ممبران اسمبلی اپنے مستقبل کے بارے میں اب مایوس نظر آتے ہیں۔ حکومت آج سے 35 دن بعد رخصت ہوجائے گی۔ 31 مئی کی شب 12 بجے موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں آئینی مدت پوری کرکے ختم ہوجائیں گی اور یکم جون سے مجوزہ نگران حکومتیں کام شروع کر دیں گی۔
عملاً تو انتخابی مہم شروع ہوگئی ہے لیکن پھر باضابطہ انتخابی عمل شروع ہوجائے گا۔ الیکشن 2018 کے انعقاد کی راہ میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے مگر اب تک سیاسی حلقے الیکشن کے مقررہ وقت پر انعقاد کے حوالے سے بے یقینی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اب بھی سازشی تھیوری کے حوالے سے بعض سیاسی حلقے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکنے کیلئے نگران حکومت کی معیاد بڑھانے کی کوشش کی جاسکتی ہے تاکہ نئے مقدمات کھول کر ضرب کاری لگائی جاسکے۔ فی الحال تو موجودہ حکومت کیلئے بڑا چیلنج نئے مالی سال کا بجٹ منظور کرانا ہے۔ کل سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس شروع ہو رہے ہیں۔ کل بجٹ پیش کیا جائے گا۔ اس پر عام بحث ہوگی لیکن اصل مرحلہ مالیاتی بل کی منظوری اور اپوزیشن کی کٹوتی کی تحاریک کو مسترد کرانا ہے جس کے بروقت ایوان میں حکومتی ممبران کی حاضری درکار ہوگی۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ وزراء ایوان میں موجود نہیں ہوتے۔ اب تو یہ مسئلہ بھی ہے کہ بعض ارکان مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں جاچکے ہیں۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاز والے چار ممبران مستعفی ہوچکے ہیں۔ بعض جانے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ ان حالات میں بجٹ منظور کرانا بہرحال ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ نگران وزیراعظم پر اتفاق رائے کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان فیصلہ کن ملاقات بجٹ اجلاس کے بعد وسط مئی میں ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کی سوچ یہ ہے کہ معاملہ آگے الیکشن کمیشن یا پارلیمانی کمیٹی تک نہ جانے دیا جائے بلکہ اس ملاقات میں ایک نام پر اتفاق رائے کر لیا جائے بے شک حکومت کو سرنڈر کرنا پڑے اور اپوزیشن لیڈر کے پیش کردہ نام کو قبول کر لیا جائے اس سے ایک مثبت پیغام جائے گا کہ سیاسی جماعتیں افہام وتفہیم اور ڈائیلاگ سے ایشوز کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
دوسرے یہ کہ پیپلز پارٹی کا نام قبول کرنے سے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان جاری تنائو میں کمی واقع ہوگی۔ جہاں تک انتخابی دنگل کا تعلق ہےخدشہ ہے کہ معلق پارلیمنٹ آجائے گی؟ مطلوبہ نتائج لانے کیلئے سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا جارہا ہے۔ مذہبی گروپوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ اس موقع پر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا مطالبہ پیش کرکے لسانی عصبیت کو ہوا دی جارہی ہے۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی جارہی ہیں یہ سب کچھ جمہوریت اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس سے وقتی فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے مگر اس کے دور رس منفی نتائج مرتب ہوں گے جیسا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کیلئے ایم کیو ایم بنوائی گئی۔ پھر سپاہ صحابہ بنوائی گئی۔ نتیجہ قتل وغارت اور انتشار کی صورت میں نکلا۔
اب بھی جس انداز میں بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت جس پراسرار انداز میں ہائی جیک ہوگئی۔ راتوں رات نئی جماعت بن گئی تمام لیگی ممبران اسمبلی کچے دھاگے سے بندھے اس قافلے کے ہمرکاب ہوگئے۔ وزیر مملکت جام کمال خان بھی چلے گئے۔ آخر میں مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر سردار ثناء اللہ زہری تنہا کھڑے نظر آئے۔ اب تو شہباز شریف نے ان سے صدارت بھی لے لی ہے اور عبدالقادر بلوچ قائم مقام صوبائی صدر بن گئے ہیں۔
سیاسی ہائی جیکنگ بلوچستان سے مرضی کے سینیٹرز بنوانا تھا یہ مقصد بخیروخوبی حاصل کر لیا گیا دوسرا مرحلہ مرضی کا چیئرمین سینٹ بنوانا تھا۔ وہ بھی خوش اسلوبی سے طے ہوگیا۔ پلان اے پر کامیابی سے عمل ہوا مگر سینٹ کے الیکشن نے سیاسی جماعتوں کی ساکھ کو شدید دھچکا لگایا۔ اس سے مجموعی طور پر سیاستدان بدنام ہوئے اور عوام میں یہ رائے ابھری کہ سیاستدان بکائو مال ہیں۔ حالیہ سیاسی ممات کے سرخیل تو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے بلوچستان حکومت گرانے اور وہاں سے سینٹ الیکشن کے مطلوبہ نتائج دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اعتماد کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ بلوچستان میں ان کی مرضی کی حکومت بنے گی اور وہ چیئرمین سینٹ کی نشست مسلم لیگ (ن) کو نہیں لینے دیں گے۔ یہ کارنامہ انہوں نے کرکے دکھایا۔
منتخب ہونے کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو پوری کابینہ کے ہمراہ سب سے پہلے کراچی گئے اور آصف علی زرداری کے قدم چھوئے۔ مسلم لیگ (ن) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت چیختی رہ گئی کہ سینٹ الیکشن میں پیسہ چل رہا ہے مگر ان کی بے بسی دیدنی تھی۔ عمران خان نے پہلے تو خود اعتراف کیا کہ ان کے ایم پی ایز نے پیسے لئے ہیں اور انکوائری کرانے کے بعد یہ انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کے 20 ایم پی ایز نے چار چار کروڑ روپے لئے ہیں۔
جس جماعت کے 60 ایم پی ایز میں سے 20 ایم پی ایز یعنی ایک تہائی پارلیمانی جماعت 80 کروڑ روپے میں بک جائے اس سے قوم مستقبل میں کیا توقعات لگا سکتی ہے لیکن بہرحال عمران خان نے اخلاقی جرأت کا ضرور مظاہرہ کیا ہے اور سینٹ الیکشن میں خریدوفروخت کا اعتراف کر لیا۔ اب عمران خان پر ایک اور اعتراف کا قرض ہے وہ ہے کہ انہوں نے کس کے حکم پر چیئرمین اور دپٹی چیئرمین سینٹ کو ووٹ دیئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے تحریک انصاف کے ساتھ وہی کیا ہے جو جاوید ہاشمی نے کیا تھا۔ الیکشن کے موقع پر سراج الحق کی جانب سے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے حوالہ سے دیا گیا یہ بیان چونکا دینے والا بھی ہے اور سیاسی جماعتوں کے کردار پر سوالیہ نشان بھی ہے۔
اب میرا خیال ہے کہ آئندہ عمران خان سے یہ نہ پوچھا جائے کہ انہوں نے ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو کیوں ووٹ دیا۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ ایک پیر کے مرید ہوں تو پیر بھائی ہونے کے ناطے سے اپ کا حق بنتا ہے کہ ایک دوسرے سے تعاون کریں کیونکہ ایک ہی آستانہ عالیہ سے جو منسلک ٹھہرے۔ اب 2018 کے الیکشن کے نتائج دیوار پر لکھے ہیں۔ صاف طور واضح ہیں انہیں آسانی کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔ جو سینٹ کے الیکشن میں ہوا وہ ٹریلر تھا۔ اس سکرپٹ کے مطابق الیکشن 2018 میں بھی وہی نتائج آئیں گے۔ سراج الحق کے بیان سے نواز شریف کے بیانیہ کو تقویت ملی ہے وہ اس بیان سے بہت خوش ہیں لیکن الیکشن نے نتائج میں انہیں صدمہ ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوجائے۔
الیکشن میں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے چار بڑے دھڑے حصہ لیں گے۔ ایم کیو ایم تین دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے الطاف حسین نے جو شخصی آمریت قائم کی اس کا خمیازہ آج ان کی جماعت بھگت رہی ہے قیادت کے معاملہ پر جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔