نیکی (چھوٹی ہو یا بڑی) کبھی ضائع نہیں جاتی، اخلاص اور جذبۂ خوشنودی خداوندی شرط ہے۔محسنِ انسانیت، حضرت محمد مصطفی ﷺکا ارشادِ گرامی ہے: ’’ہر نیکی صدقہ ہے۔‘‘(حدیث شریف)
ایک بار مکہ مکرمہ کے کچھ باشندوں نے مشہور محدث ابنِ عُیینہؒ کے کہنے پر ایک شخص سے سانپ والا واقعہ بیان کرنے کو کہا تو انہوں نے وہ حکایت بیان کی کہ ایک شخص شکار کے لیے گیا۔جنگل میں ایک جگہ سانپ نکل کر اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔سانپ نے اس شخص سے بات کی اور کہا کہ تم مجھے امان دے دو،اللہ تمہیں امان دے گا۔ اس نے سانپ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ میں ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کی گواہی دینے والوں میں سے ہوں۔
پھر اس نے سانپ سے پوچھا، کس کے خوف سے تم مجھ سے امان کا مطالبہ کررہے ہو؟اس نے کہا، تمہارے پیچھے والے شخص کے خوف سے۔اگر وہ مجھ پر قادر ہوگیا تو میرے ٹکڑے کردے گا۔پھر اس نے سانپ سے سوال کیا کہ تم کہاں پناہ لو گے؟ اس نے کہا، تمہارے پیٹ میں۔اس نے سانپ کے سامنے منہ کھول دیا۔
سانپ اسی وقت اس کے پیٹ میں چلا گیا۔ اس کے بعد گلے میں تلوار لٹکائے،ایک شخص آیا اور اس نے شکاری سے سانپ کے بارے میں پوچھا۔ شکاری نے کہا، واللہ مجھے اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔ وہ شخص واپس چلا گیا۔
اس کے بعد سانپ پیٹ میں سے بولا، اے شکاری!دو چیزوں میں سے ایک اختیار کرلو!یا تومیں تمہارے قلب میں سوراخ کر کے تمہیں قتل کردوں یا تمہارے جگر کو پھاڑ دوں؟شکاری نے کہا، تم کیسی بات کررہے ہو؟ سانپ نے کہا، تمہیں معلوم نہیں،میں تمہارے باپ آدمؑ کا دشمن ہوں۔
ہمیشہ جاننے والے سے نیکی کرو۔اس کے بعد شکاری پہاڑ کے دامن میں آگیا۔ وہاں پر اسے ایک نہایت حسین و جمیل انسان نظر آیا۔ شکاری نے اسے سارا واقعہ سنا ڈالا۔حسین شخص نے شکاری کو ایک چیز دے کر کہا،اسے کھالو۔اس نے کھا لیا، جس کے بعد اس کے ہونٹ پھڑکنے لگے۔پھر دوسری چیز دے کر کھانے کو کہا۔
شکاری نے وہ بھی کھالی۔اس کے بعد وہ سانپ ٹکڑوں کی صورت میں اس کے پیٹ سے باہر آکر ختم ہوگیا۔ شکاری نے حسین شخص سے پوچھا،تم کون ہو؟ اس نے جواب دیا ’’انا المعروف‘‘ میں (تمہاری کی گئی) نیکی ہوں۔ پھر وہ اس کی نظروں سے غائب ہوگیا۔
قرآن پاک میں ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کا اجر(کبھی) ضائع نہیں کرتا۔