• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پاکستان کی کامیاب ترین سفارت کار ’’ ملیحہ لودھی‘‘

پاکستان کی کامیاب ترین سفارت کار ’’ ملیحہ لودھی‘‘

ڈاکٹرملیحہ لودھی کا نام بحیثیت بہترین معلمہ، صحافی، کالم نگار،مصنف و ادیبہ اور سفارت کار کسی تعارف کا محتاج نہیں جنہوں نے جس جس شعبے میں قدم رکھا، اختراعی و تخلیقی صلاحیتوں سے اپنا لوہا منوایا۔

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سےڈاکٹر ملیحہ لودھی نےفروری 2015ء میںذمہ داریاں سنبھالیں ۔ واضح رہے کہ ملیحہ لودھی ماضی میں دو مرتبہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر اور برطانیہ میں ہائی کمشنر کے فرائض انجام دے چکی ہیں۔ وہ 2001ء سے 2005ء تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ایڈوائزری بورڈ کی ممبر بھی رہ چکی ہیں۔ 

 ملیحہ لودھی نے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کیا، ٹیچر کی حیثیت سے قائد اعظم یونیورسٹی اور لندن اسکول آف اکنامکس میں خدمات انجام دے چکی ہیں، پاکستان سے شائع ہونے والے دو انگریزی روناموں کی ایڈیٹر بھی رہیں، انہیں ان کی خدمات کے صلے میں دو ہزار دو میں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا،وہ کئی کتابوں کی مصنف اور کالم نگار کی حیثیت سے بھی پہنچانی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی کامیاب ترین سفارت کاری کا اعتراف روس میں 10 فروری کو سفارتکاروں کے عالمی دن کے موقع پر روس کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری فہرست میں بھی کیا گیا جس کے مطابق پاکستانی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی مسلمان ممالک میں مقبول ترین خاتون شخصیت ہیں۔ملیحہ لودھی جنوبی ایشیا کی پہلی خاتون ہیں جو کسی انگریزی اخبار کی ایڈیٹر رہی ہیں۔

عالمی ستائش

معروف برطانوی روزنامہ ٹیلی گراف کے مطابق ’’لودھی نے پاکستانی خواتین کے بارے میںموجود ان تمام آرا کو غلط ثابت کردکھایا کہ وہ ان پڑھ ،لاعلم اور گھروں کی چاردیواریوں میں محصور ہیں۔ملیحہ ذہین، حاضر دماغ،خوش اخلاق،حسِ مزاح رکھنے والی ایسی عورتازاد ہیں جو کھاناپکانے سےاوبتی ہیں۔‘‘نیویارک ٹائمز کے مطابق:’’لودھی نے خود کو درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے کے ثقافتی پس منظر کے ساتھ جدت طراز، خودمختار، اپنی مدد آپ کے تحت علم و دانش حاصل کرنے والی جنوبی ایشیائی خاتون کے طور پر اجاگر کیا۔بینظیر بھٹو کے برعکس، جن کا تعلق جاگیردار سیاسی گھرانے سے تھا، والد پاکستان کے صدر اور وزیرِ اعظم رہے،لودھی برطانوی آئل کمپنی میں چیف ایگزیکٹیو اور صحافی کی دختر ہیں۔انہیں اسکول کی تعلیم کے لیے راولپنڈی میں واقع راہباؤں کے کانوینٹ بھیجا گیا، جو معیاری تعلیم کے حوالے سے دستیاب بہترین ادارہ تھا۔انہوں نے یہیں سے رواداری و برداشت اور باہمی احترام کا سبق سیکھا۔

بچپن ہی میں قرآن شریف کا درس مکمل کیا۔ان کا گھرانہ کٹر مذہبی کے بجائے روحانی خیالات کا حامل ہے۔‘‘1994میں معروف امریکی جریدے ’’ٹائیم‘‘ نے ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا شماران 100عالم رہنماؤں میں کیا جنہوں نے اکیسویں صدی میںاپنے ادراک اور کام سے سوچ کے دھارے تبدیل کردئیے۔پاکستان سے وہ واحدخاتون تھیں جو تبدیلی لانے والے ان عالمی رہنماؤں کی صف میں شامل کی گئیں۔انہوں نے 1994میںلاس اینجلز ٹائمز سے بات چیت کرتے ہوئے ببانگِ دہل کہا :’’ ہم یہاں جدوجہد کررہے ہیں لیکن ہمارے پاس کافی علم و آگہی نہیں۔ہمیں کبھی کبھی غیر ذمہ دار ریاست کہا جاتا ہے جو قرینِ انصاف نہیں‘‘

ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی زندگی کا سفر ان کی زبانی

پاکستان کی بیرونِ ملک شناخت کا مضبوط حوالہ جہاں بینظیر بھٹو ہیں وہیں امریکا و یورپ میں جس پاکستانی خاتون کے چرچے ہیںوہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی ہیں جنہوں نے اپنے قلم اور تقریر سے دنیا میں روشن پاکستان کی تصویر واضح کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور جب نائن الیون کا سانحہ ہوا تو یہ لودھی ہی تھیں جنہوں نے اپنی کمال سفارت کاری سے امریکی مسلمانوں کے جان و مال کا تحفظ کیا ۔ ونفرے اوفیرا جیسے مقبول امریکی ٹاک شو میں آکر امریکیوں کے اس تاثر کو زائل کرنے میں مدد دی کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ۔دہشت گرد کوئی بھی ہو سکتا ہے۔وہ مزید کیا کہتی ہیں آئیے انہیں کی زبانی سنتے ہیں:

’’ اگر ہم تلخ حقائق کے مطابق اپنی توقعات رکھیں تو کبھی مایوسی کا شکار نہ ہوں۔عالمی فورمز پر جو اظہارِ جرئت کا سلیقہ پایا وہ میرے امی ابو کی مرہونِ منت ہے۔میں اپنے آپ کو خو ش نصیب سمجھتی ہوں کہ نوجوانی ہی میںمجھے ماں کے روپ میں مثبت خاتون کا رول ماڈل ملا۔میں نے اپنی والدہ کو ماڈرن مسلم خاتون کے روپ میں دیکھا جنہوں نے صحافت میںتربیت حاصل کی،لیکن تقسیم ہند اور شادی کے جھمیلوں میں امریکا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالر شپ کی سہولت حاصل نہ کرسکیں اور گھر گھرھستی کی ہوکر رہ گئیں۔ان کی تربیت ہی کا اثر تھا کہ میں نے اپنی ذات پر اعتماد حاصل کیا۔ہماری خواتین میں تبدیلی کا واحد محرک تعلیم ہے ۔اگر آپ تبدیل چاہتی ہیں تو خلوصِ دل سے کام کیجیے،اس کے نتائج کامیابی اور قابلیت کی صورت نکلیں گے۔ 

ہمیں اپنی خاندنی اقدار کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔فیملی کی سپورٹ بہت لازمی ہے۔میری کامیابیوں میں میرے گھر والوں کا بنیادی کردار ہے۔ہماری پڑھی لکھی خواتین کو امورِ خانہ داری میں بچوں کی تربیت کے فریضے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ہم چاہے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں بے پناہ دلچسپی اور خلوص کے بغیر کامیابی نہیں ملتی۔یہ راز میں نے اوائلی عمر سے ہی جان لیا تھا کہ جب تک آپ اپنے کام سے والہانہ عشق نہیں کریں گی کامیابی ناممکن ہے۔میں نے زندگی میںکبھی نہیں سوچا کہ کیا بننا ہے۔جو کام کیا انتہائی خلوص اور نیک نیتی سے کیا۔

صحافت میں گزارے بائیس برس ہوں یا تدریس اورسفارت کاری کے ادوار، ان تمام برسوں میں ،میں نے جو کام کیا ،ایمانداری، چاہت اور لگن سے کیا۔آپ کو ہر حالت میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔پاکستان کے لوگ دوسروں کی رائے تحمل سے سنتے ہیں اس لیے جب عوامی سطح پر تبدیلی آئے گی تو پاکستان کا روشن چہرہ واضح ہوگا۔اپنے مقاصد اور اہداف کی تشریح خود کریں۔ اپنے دماغ سے سوچیں ۔یہ نہیں کہ ہر ایک راہ رو کے سنگ چل دیں ۔آپ کی اپنی سوچ ہی آپ کی زندگی کا تعین کرتی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین