• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
20 زبانیں سیکھنے کا شاندار تجربہ

زبانیں سیکھنے کا شوق کچھ لوگوں میں قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ ہوتا ہے اور وہ اپنے شوق کے حصول میں ہر وہ کاوش کرتے ہیں جو زبان و ادب کو سیکھنے میں ممد و معاون ہوتی ہے۔ہم پاکستانی بھی کثیر السانی قوم ہیں جو ایک ساتھ مادری زبان،قومی زبان اور سرکاری زبان سیکھتے ہیں۔

اس طرح ہمارے خطے میں 73 زبانوں کے گلدستے ہیں جن سے نہ صرف ہم مستفید ہوتے ہیں بلکہ ہمارے لئے مغربی زبانوں میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن، اسپینش، جاپانی، چینی زبانوں کی تدریس و تفہیم چنداں مشکل اس لئے نہیں رہی کہ اس خطے میں قدیم زبان سنسکرت سے لے کر عربی زبان و ادب تک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔

جب بات اردو کے ادب و شاعری کی ہو تو ہمارے لیے فارسی کی اہمیت سوا ہوجاتی ہے۔یوں اسلامی ادب کے لیے عربی زبان اور اردو ادب کے لیے فارسی زبان کی تفہیم لازم قرار پاتی ہےجیسے انگریزی پر درک حاصل کرنے کے لیے یونانی و عبرانی،فرانسیسی و جرمن سے شناسائی وقعت پاتی ہے۔پاکستان مختلف زبانوں کا وہ گلدستہ ہے جہاں ستر کے قریب زبانیں پائی جاتی ہیں ۔

ان میں پچیس سے زائد زبانوں کا باقاعدہ تحریری رسم الخط بھی ہے لیکن ہمارا اصرار اب بھی یک لسانی پاکستان پر ہے ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ زیادہ زبانیں جاننے والے زیادہ ذہین اور وسیع النظر ہوتے ہیں اور وہ ہر مادری زبان کی عزت کرتے ہیں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے سب کو اپنی ماں پیاری لگتی ہے۔پھر ہم نہیں ماہرینِ تعلیم بھی کہتے ہیں کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے باآسانی آنے والے ادوار میں دیگر زبانوں پر عبور حاصل کرتے ہیں کیوں کہ پہلے اپنی زبان بولی جاتی ہے پھر علم کا سمندر وسیع ہوتا جاتا ہے۔دیگر زبانوں اور ماں بولیوں سے عزت سوا ہوجاتی ہے اس لیے یہ بحث اب ختم ہوجانی چاہیے کہ ہم کیا کریں!؟ ہمارا اردو،سندھی اور انگریزی میڈیم بہت اچھا ہے جہاں ہم ایک ساتھ تینوں زبانیں پڑھتے ہیں۔\

اس ضمن میں ٹموتھی ڈونرہمارے لیے زبانوں سے چاہت کی عظیم مثال ہیں،جو حال ہی میںہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں،جہاں انہوں نے 20 سے زائد زبانوں کی تعلیم حاصل کی۔انہوںنے اپنی زبان دانی پر مہارت حاصل کرنے کے لیے زیادہ تر وقت نیویارک شہر کے مختلف علاقوں میںبسر کیا۔ ان کے یو ٹیوب چینل، پولیگلٹ پال کو 5 ملین سے زیادہ لوگ دیکھتے ہیں،جہاں وہ زبان و لسان پر اپنے تجربات شیئرکرتے ہیں۔وہ زبان و کلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں!؟آئیے انہیں سے معلوم کرتے ہیں:

’’گزشتہ چند سالوں کے دوران مجھے ’’دنیا کےسب سے چھوٹے ہائپرپولائگلٹ‘‘ کے طور پر میڈیا میںشہرت دی گئی ہے۔ ایک ایسا لفظ جو مجھےایک غیر معمولی بیماری کی طرح لگتا ہے۔یہ کسی ایسے شخص کو بیان کرتا ہے جو غیر ملکی زبانوں کوزیادہ تعداد میں بول سکتا ہے، جو کسی بھی لفظ اورقواعد ونحو پر گھنٹوں لیکچر دے سکتا ہے۔لیکن سچ یہ ہے کسی بھی زبان پر دسترس ہونے کا کوئی بھی دعویٰ نہیں کرسکتا ! ہاں یہ درست ہےکہ میں انگریزی سمیت 20 مختلف زبانوں میں بات کر سکتا ہوں۔یہ معاملہ کچھ یوں ہے کہ عربی زبان میں کباب درکار ہیں اور ہندی میں مینو کی طلب ہے۔اس طرح زبان بھی کسی ہنر اوردستکاری کی مانند ہے جس میں جب دل چاہا بھانت بھانت کے الفاظ پیوند کردئیے۔

میں نے تیرہ سال کی عمر میں زبانوں کی تعلیم شروع کی۔ میں مشرق وسطیٰ میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ عبرانی زبان کا مطالعہ خودشروع کیا۔ کئی وجوہ کی بنا پر ابھی تک کافی سمجھ نہیں آتی۔ میں نےجلد ہی یہ معمول بنا لیا کہ ہر صبح اسرائیلی مذاق گروپ Hadag Nachashکی ایک ہی البم کو سنتا۔ ایک مہینے کے اختتام پر بیس گانے حفظ ہوگئے - اگرچہ مجھے ان کا کوئی مطلب نہیںآتا تھا۔

لیکن ایک دفعہ جب میں نے ترجمہ کو سیکھا تو یہ تقریباً ً ایساتھا جیسے میں نے اپنے سر میں لغت کو ڈاؤن لوڈ کرلیاتھا؛ اب میں کئی سو عبرانی الفاظ اور جملے جانتا تھا - مجھے کبھی لغت دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیںہوتی ۔اب میں نے تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔میں اپنے نیو یارک شہر کے پڑوس کے ارد گردگھنٹوں گھومتے گزارتا، لوگوں کی بات چیت سننے کے لیےکبھی کبھی اسرائیلی کیفے کا دورہ کرکے خود کو متعارف کرانے کی جرات کرتا، اپنے سر میں نئے، اجنبی اور کبھی کبھار صحیح الفاظ میں تمام گیت کی دھنیں دوبارہ شروع کرتا۔

پھر میں عربی زبان کی طرف رجوع ہوا۔میں نے ہر روز صبح لغت کے ساتھ خبروں کے عنوانات اور سڑکوں کے نام پڑھنے اورسڑک پر چلنے والے لوگوں سے بات چیت کو معمول بنا لیا۔ اس کے بعد یہی روز و شب فارسی، روسی، پھر میڈرڈ ... اور لگ بھگ 15 پندرہ دیگر زبانوں کے ساتھ گزارے۔ اوسط دن میں اسکائپ پر فرانسیسیوں اور ترک دوستوں کےساتھ انہیں کی زبان میں گپ شپ کرتا، ہندی پاپ موسیقی کو ایک گھنٹے تک سنتا ہوں اور اپنےلیپ ٹاپ پر یونانی یا لاطینی کتاب کےمطالعے کے ساتھ ڈنر کرتا ہوں۔یوں زبان میرے لیے ایک جنون بن گئی، جس کاتعاقب میں نے موسم گرما کی کلاسوں، اسکول، ویب فورمز اور شہر کے ارد گرد ملنے والے صاحبانِ زبان سے ملاقات سےکیا۔

2012 کے مارچ تک، بی بی سی اور نیویارک ٹائمز جیسے ذرائع ابلاغ نے میرے بارے میںفیچر اسٹوریز شایع کیں:’’ایک بچہ جو 20 زبانیں بولتا ہے!‘‘ تھوڑی دیر کے لئے،میرے لیے یہ ایک فینٹسی تھی جس نے میرے آتشِ شوق کو بڑھایااور میں نے اس عجیب ودلچسپ شوق کو مرکزی دھارے کے طور پراختیار کرلیا۔یوں مجھے زبانیں سیکھنے کو فروغ دینے کا ایک بہترین موقع ملا۔

زبان تجارت، فتح اور ثقافت کی ایک پیچیدہ بھول بھلیاںہیںجن میں ہم ہر ایک اپنے منفرد ٹکڑے کو الفاظ کی صورت شامل کرتے جاتےہیں - چاہے وہ شیکسپرین سونٹ ہو یا ’’لو بئی جی جی جی جی ٹی ٹی ایل‘‘ جیسا کہ میڈیا اور میرے وقت نے مجھے احساس دلایا کہ ایک زبان میں بہت زیادہ مختلف چیزوں کی مشق اور مطالب ہوسکتےہیں: اس کا مطلب ہےفعل چارٹ یاد رکھنا، عوامی الفاظ جاننا۔ لیکن جب میں جانتا ہوں کہ میں 20 زبانوں میں روانی نہیںرکھتاتو میں سمجھتا ہوں کہ یہ زبان ثقافتی حدود سے باہر دیکھنے اور مشترکہ انسانیت کو تلاش کرنے کے لئے لوگوں کے ساتھ گفتگو کرنے میں کامیاب ہونے کے بارے میں ہےاور یہ سیکھنے کے قابل سبق ہے۔

اس لیے کسی بھی زبان کو سیکھنے کا عمل سہہ جہتی ہے جس میں ذخیرہ الفاظ کے لیے لغت کا استعمال، درست تلفظ کے لیے زبان کے لوگوں سے ملاقات،جملے بنانے کے لیے گرامر کے قواعد اور اس زبان کی کتاب کا بلاناغہ مطالعہ کرنا اور صاحبِ زبان سے ملنا ان کی گفتگو کو غور سے سننا معمول بنا لیا جائے تو دنیا کی کوئی بھی زبان سیکھنا مشکل نہیں ہے،جس کے لیے اہم نکتہ دلچسپی اور مستقل مزاجی ہے جسے زبانیں سیکھنے کے عمل میں میں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔‘‘

تازہ ترین