کتب، ثقافت اور فنون لطیفہ کا جشن! کراچی لٹریچر فیسٹیول کا شاندار افتتاح ہوگیا۔
پہلے دن معیشت، ادب، فلم پر گفتگو ہوئی، کلاسیکی رقص کا دلکش تڑکا بھی لگا، منتظمین کا بتانا ہے کہ تین روزہ فیسٹیول میں 70 سے زائد سیشنز ہوں گے اور 26 کتابوں کی رونمائی کی جائے گی۔
افتتاحی تقریب میں فرانسیسی سفیر، امریکی قونصل جنرل، برطانوی ڈپٹی ہیڈ آف مشن سمیت ممتاز تاریخ دان، مصنفین اور دانشور شریک ہوئے۔
پرنس کریم آغا خان کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
مہمانِ خصوصی وزیر بلدیات سعید غنی نے تقریب کو سراہتے ہوئے کہا کہ ادب معاشرے میں برداشت اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ دنیا کی سب سے نمایاں تاریخی وراثتوں میں سے ایک ہے اور یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس سرزمین کی شاندار وراثت اور ادبی دولت کو عالمی سطح پر نمایاں کریں۔
کے ایل ایف 2025ء کے لیے نامور مصنفین، اسکالرز اور ادبی شائقین ملک اور بیرون ملک سے یکجا ہوئے ہیں، جس نے ملک کے ثقافتی اور فکری منظر نامے میں فیسٹیول کی نمایاں حیثیت کو مستحکم بنایا ہے۔
ایف ایس اعجاز الدین اور اصغر ندیم کی جانب سے دیے گئے کلیدی خطاب نے فیسٹیول کی سمت متعین کی اور اس بات کو اجاگر کیا کہ ادب معاشروں کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
امریکی قونصل جنرل اسکاٹ اربوم نے کہا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر ہے کہ امریکی قونصلیٹ نے پہلے دن سے ہی اس میلے کو سپورٹ کیا ہے اور ہمیں ایک بار پھر اس کا شراکت دار بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ شراکت داری ہمارے مشترکہ اقدار سے مطابقت رکھتا ہے، جو ایک محفوظ، خوشحال اور مستحکم مستقبل کی عکاسی کرتی ہے، جہاں خیالات کے آزادانہ تبادلے کو سراہا جاتا ہے۔
بعدازاں بینا شاہ کی کتاب دی مون سون وار کو انگلش فکشن پرائز ایوارڈ، سعید شارق کی کتاب کوہِ ملال کو اردو شاعری کا ایوارڈ دیا گیا۔ اردو نثر ایوارڈ سات جنم اول کے لیے شفقت نغمی کو دیا گیا اور جیم عباسی کے سندھو ناولٹ کو بھی اعزاز سے نوازا گیا۔