• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ننھے سائنس دانوں کی تلاش

پاکستان کے ہونہار بچوں شہیر اور خدیجہ نیازی نے بطور سائنس دان جس وقت خود کو پوری دنیا میں منوالیا تھا، اس وقت انھوں نے ہائی اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں کی تھی( شہیراور خدیجہ جڑواں بہن بھائی ہیں)۔ اس کا سہرا تعلیم کے غیرروایتی طور طریقوں اور سائنس کے ساتھ شدید لگاؤ کے سر جاتا ہے۔ ان کے والد احمد نیازی، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے پائلٹ ہیں، جبکہ ان کی والدہ عائشہ نیازی ماضی میں اسپیچ تھراپسٹ رہ چکی ہیں، اب وہ اپنا وقت بچوں کی تعلیم و تربیت میں گزارتی ہیں۔

عام لوگوں کی طرح روزمرہ کی زندگی گزارنے والا یہ خاندان دوسروں سے بہت مختلف ہے۔ ان سب میں علم حاصل کرنے اور کائنات کے سارے راز جان لینے کا شوق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ شہیر کے چشمے اور گھنگریالے بال دیکھ کر کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس کی الیکٹرک ہنی کومب افیکٹ (electric honeycomb effect) کے متعلق تحقیق دیکھنے کے بعد اس سے کہیں زیادہ تجربہ رکھنے والے سائنسدان دنگ رہ گئے ہیں۔ حال ہی میں شہیر کا ایک ریسرچ پیپر روئیل سوسائٹی اوپن سائنس (Royal Society Open Science) نامی جرنل میں بھی شائع ہوا ہے۔ اپنی کامیابیوں سے متعلق شہیر کا کہنا ہے،’’جب ہم چھوٹے تھے، ہمارے والدین ہمیں کتابیں لا کر دیتے تھے، جن میں فزکس کے Concepts کو سمجھا گیا تھا۔ یہ بچوں کی کتابیں تھیں، جن میں پڑھنے کا مواد کم اور تصویریں زیادہ ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ، ہم دستاویزی فلمیں بھی دیکھا کرتے تھے۔ میرے والد فزکس میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ خود بھی فزکس کی کئی کتابیں خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ انھوں نے دستاویزی فلموں، کتابوں اور آن لائن کورسز کی مدد سے ہمارے اندر بھی فزکس کا شوق پیدا کرنے کی کوشش کی اور ہمیں سیکھنے میں مزہ آنے لگا‘‘۔

انتہائی ذہین جڑواں بچے

شہیر نے جس ٹورنامنٹ کے نتیجے میں اپنا تجربہ کیا تھا، اس میں اس کی جڑواں بہن خدیجہ اس کی ٹیم کی کپتان تھی۔اپنے بھائی کی طرح خدیجہ نیازی بھی بین الاقوامی توجہ کا مرکز رہ چکی ہے۔ سب سے پہلے اکتوبر 2012ء میں ٹائم میگزین نے خدیجہ کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا۔ 

وہ اس وقت اپنی بارہویں سالگرہ سے پہلے یوڈاسٹی (Udacity) نامی سیلیکون ویلی کی اسٹارٹ اپ کمپنی سے کالج کے لیول کا ایک آن لائن کورس مکمل کرنا چاہتی تھی۔ خدیجہ امتحان دے ہی رہی تھی، جب پاکستانی حکومت نے یوٹیوب پر پابندی عائد کردی، جس کی وجہ سے وہ سائٹ کی ایمبیڈڈ ویڈیوز تک رسائی حاصل نہیں کرپائی۔ اس نے یوڈاسٹی کے فورم پر ایک غصے بھرے پیغام میں اپنے دُکھ کا اظہار کیا اور کچھ ہی گھنٹوں میں دوسرے طلباء نے اس کی مدد کرنا شروع کردی۔ اگلے روز اس نے امتحان نا صرف پاس کیا، بلکہ اس میں امتیازی پوزیشن بھی حاصل کی۔

شہیر اور خدیجہ کے والدین نے انھیں ہمیشہ روایتی نظام تعلیم سے ہٹ کر تعلیم دی۔ ان کے والدین انھیں ہمیشہ کہتے ہیں، ’’کتابیں پڑھو، دستاویزی فلمیں دیکھو، اور پھر آن لائن جا کر مزید معلومات ڈھونڈنے کی کوشش کرو‘‘۔

ننھے سائنس دانوں کی تلاش

سائنسدانوں کی پرورش

خدیجہ اور شہیر کا سائنس میں اس قدر لگاؤ کا سہرا ان کے والدین کے سر جاتا ہے۔ ان کی والدہ کہتی ہیں کہ جب ان کے بچے صرف دو ماہ کے تھے، اس وقت سے ہی وہ انھیںرنگ برنگی کتابیں اور فلیش کارڈز دکھایا کرتی تھی اور انھیں ہر چیز پڑھ کر سناتی تھیں۔ ان کی سہیلیاں انھیں کہتی تھیں کہ وہ اپنا وقت ضائع کررہی ہے، کیوں کہ بچے اس وقت بہت چھوٹے تھے اور میری سہیلیوں کا خیال تھا کہ انھیں اس عمر میں کچھ سمجھ نہیں آنا تھا۔ تاہم ان کی والدہ نے اپنی سہیلیوں کی ایک نہ سُنی۔’’ میرے خیال میں بچے کا دماغ نئی معلومات پراسیس کرنے اور کنکشنز قائم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہوتا ہے۔ میں ایک اسپیچ تھراپسٹ رہ چکی ہوں‘‘۔ وہ کہتی ہیں۔

عائشہ نے اپنے بچوں کو نو ماہ کی عمر سے ہی انٹرنیٹ کی مدد سے فونکس سکھانا شروع کردیا تھا۔ وہ بڑے فخر سے بتاتی ہیں کہ جب شہیر اور خدیجہ نے تقریباً تین سال کی عمر میں پریپ اسکول جانا شروع کیا، اس وقت ان کے کلاس کے باقی بچے حروف تہجی سیکھ رہے تھے، اور خدیجہ پورے پورے جملے پڑھ سکتی تھی۔ 

اساتذہ نے انھیں کہا کہ بطور والدہ انھیں اپنی بچی پر فخر ہونا چاہیے۔شہیر اور خدیجہ نے انٹرنیٹ کی مدد سے پڑھنا، گنتی کرنا اور بنیادی حساب کتاب سیکھا تھا۔’’جب میں انھیں گاڑی میں لے کر کہیں جاتی تو میں ان سے سارے پوسٹرز، بل بورڈز وغیرہ پڑھنے کو کہتی تھی۔ وہ مسلسل علم حاصل کر رہے ہوتے تھے، اور ہم نے ان کو کتابوں کی دنیا تک محدود نہیں رکھا تھا۔ 

میں ان کے ذہنوں کو ہمیشہ اور ہر طریقے سے مصروف رکھنا چاہتی تھی‘‘۔وہ کہتی ہیں۔ شہیر اور خدیجہ نے انٹرنیٹ پر دستیاب انٹریکٹیو تعلیمی مواد کی دست یابی سے بھی بہت فائدہ اُٹھایا۔ یوٹیوب پر فزکس کے متعلق یوریکا (Eureka) نامی ایک سیریز موجود ہے۔ شہیر اس سیریز سے بہت متاثر ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسے اردو میں ڈب کرکے پاکستان کے تمام بچوں تک پہنچایا جائے۔

تازہ ترین