• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیکھئے، میں ایک مسکین سا آدمی ہوں۔ میں عام سا آدمی ہوں، میںچالاک نہیں ہوں۔ اس لئے میرے اطراف ہونےوالی چالاکیوں کو سمجھنےمیں مجھے دیر لگی ہے پاکستان کی بیس کروڑ کی آبادی میں، میں اکیلا سادہ سا اور جھلا سا آدمی نہیں ہوں۔ پاکستان میں ہماری تعداد کے بارے میں آ پ ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا سکتے۔ بیس کروڑ کی آبادی میں ہم جھلوں کی تعداد انیس کروڑ، ننانوے لاکھ، ننانوے ہز اراور ننانوے سو نوے ہے۔ آپ ہمیں رعایا بھی کہہ سکےہیں۔ چاہیں تو آپ ہمیں محکوم بھی کہہ سکتے ہیں۔ باقی ماندہ لوگ ہمارے حاکم ہوتے ہیں۔ وہ اعلیٰ نسل کے ہوتے ہیں۔ ہم ادنیٰ نسل کے ہوتےہیں۔ اس لئے وہ ہمارے حاکم ہوتے ہیں۔ ہم پرحکومت کرتے ہیں۔ ہم ان کے محکوم ہوتےہیں۔ محکوم کو رعایا بھی کہتے ہیں۔ رعایا کو رعیت بھی کہتے ہیں۔ یہ تمام نام عام آدمی کے نام ہیں۔ میں عام آدمی ہوں۔ میرے جیسے عام آدمیوں کی پاکستان میں تعداد انیس کروڑ، نناوے لاکھ، ننانوے ہزار، ننانوے سو اور نوے ہے۔ ہم جھلے پیدا نہیں ہوتے۔ ہمیں جھلا بنا دیا جاتا ہے زیادہ درست اعتراف یہ ہو گا کہ ہمیں حالات کے ہاتھوں جھلا بنا دیا جاتا ہے۔ اس لئے چالاک لوگوں کی چالاکیاں سمجھنے میں ہمیں دیر لگتی ہے۔ اور جب ہم چالاک لوگوں کی چالاکیاں سمجھنے لگتے ہیں۔ تب ہمیں بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اور اس دوران ملک میں ہم جھلوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہوتاہے۔ دوسرے کسی کی مثال دینے سے بہتر ہے کہ میں اپنی مثال دوں۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں مجھے جب احساس ہوا کہ جن حاکموں کی خوبصورت شکلیں آج میں دیکھ رہا ہوں، ان کو میں نے انیس سو سینتالیس میںبھی دیکھا تھا۔ بلکہ میں انیس سو سینتالیس سے ان لوگوں کو سنتا اور دیکھتا آرہا ہوں۔ ان کی شکلیں بدل جاتی ہیں۔ ان کے نام بدل جاتے ہیں۔ ان کی پہچان بدل جاتی ہے۔ مگر ان سب کا لب لباب وہی رہتا ہے۔ ان کے لب و لہجہ میں رتی برابر فرق نہیں ہوتا۔
انیس سو سینتالیس سے لے کر آج تک، سن دو ہزار اٹھارہ تک ہمارے حاکم ہم محکوموں کے لئے بہت فکر مند رہتے ہیں۔ ہماری غربت اور افلاس کے غم میں گھلے جاتے ہیں۔ کئی حاکموں کو ہم نے دبلا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ دن میں بمشکل ایک دو نوالے منہ میں ڈالتے ہیں۔ کہتےہیں کہ جب تک پاکستان میں ایک بھی شخص بھوکا رہتا ہے۔ کھانا ان پر حرام ہے۔ وہ لوگ ہم جھلوں کی غربت دور کرنے کے لئے طرح طرح کے منصوبے بناتے ہیں۔ وہ منصوبے مختلف دورانیے کے ہوتے ہیں۔ پانچ سالہ منصوبے۔ سات سالہ منصوبے۔ سترہ سالہ منصوبے۔ سو سالہ منصوبے۔ پانچ سو سالہ منصوبے۔ ایک ہزار سالہ منصوبے۔ ایسے حکمران بھی نمو دار ہوتے ہیں جو قیامت کے روز تک ہماری غربت دور کرنے کے منصوبے بناتے ہیں۔ منصوبے بناتے بناتے وہ پہلے امیر اورپھر امیر ترین بن جاتے ہیں۔ امیر ترین بن جانےکے بعد وہ اپنا نام بدل کر اور چہرے پہ نیا چہرہ لگا کر ہم جھلوںکو غربت کی دلدل سے نکالنےکے منصوبے بناتے ہیںاور ہم جھلوںکی مفلسی پر کڑھتے رہتے ہیں۔
ہمارے مستقل حکمران جو نام اور چہرہ بدل کر پچھلے ستر برس سے مستقلاً ہم پر حکومت کر رہے ہیں، ہماری غربت کے علاوہ ہماری بیروزگاری کے بارے میں بھی فکر مند رہتے ہیں بیروزگاری دور کرنے اور بیروزگاروں کو کام دھندے پر لگانے کے لئے ملک میں کارخانوں اور فیکٹریوں کا جال بچھانے کی باتیں کرتے ہیں، اور ہم جھلے ان کےجال میں پھنس جاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حکمران ہم سے جھوٹ بولتے ہیں۔ یا پھر ہمیں چکر دیتے ہیں۔ نہیں نہیں… وہ سچ بولتے ہیں۔ہماری بیروزگاری ان سے دیکھی نہیں جاتی…! وہ ہماری بیروزگاری کا کوئی معقول حل نکالنا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان کی آنے والی نسلیں منحوس بیروزگاری کا منہ نہ دیکھیں۔ وہ اپنے وعدے کے مطابق کارخانوں اور فیکٹریوں کا جال بچھاتے ہیں۔ مگر بھول چوک سے یہاں نہیں، کہیں اور۔ وہ صنعت گیری کرتےہیں، مگر یہاں نہیں، کہیں اور۔
ستر برس سے مستقلاً ہم پر حکومت کرنےوالے خوب جانتے ہیں کہ تعلیم و تربیت کے بغیر دنیا کا کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ایساملک اقوام عالم میں فخر سے سر اٹھا کر کسی سے بات نہیں کر سکتا لہٰذا ہمارے مستقل حاکموں نے تعلیم پرخاص توجہ دی ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں تعلیم و تربیت کے معتبر ادارے ہیں، وہاں وہاں وہ نوجوانوں کو آراستہ ہونے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ جن بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے، ہمارے مستقل حکمراں بیرون ملک بھیجتے ہیں وہ ان کے اپنے بچے ہوتے ہیں۔ وہ بچے ان کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ کنبے کے ہوتےہیں۔ چونکہ ہم ایک قوم ہیں اس لیے ہم جھلےاپنے مستقل حکمرانوں کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھتے ہیں۔
ہم جھلوں کو مستقل حکمرانوں کے خلاف پچھلے ستربرس کے دوران کئی بار اٹھ کھڑے ہونے، اور بغاوت کرنے کے لئے ورغلایا گیا ہے۔ مگر ہم نے بدخواہو ں کی ایک نہ سنی۔ ہم نےان کو مایوس کر دیا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ جتنی اور جیسی جیسی مراعات مستقل حاکموں نے ہم جھلوں یعنی رعایا کو دیے رکھیں، دنیا کےکسی ملک کے جھلے ایسی مراعات کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جو جھلے نہیں ہیں، ان کو بتا دوں کہ ہم جھلے کھلم کھلا بجلی کے تاروں میں کنڈے ڈال کر مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ وقت قیمتی ہے۔ اس لئے ہم ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لئے سرخ سگنل پر کبھی نہیں رکتے۔ ہم جھلے جہاں سے آئیں، ہمیں پاکستان کا قومی شناختی کارڈ بنوانےمیں رتی برابر تکلیف نہیں ہوتی۔ ہم جہاں چاہیں دھرنا دے سکتے ہیں۔ ہم جب چاہیں جلوس نکال سکتے ہیں۔ ہم جب چاہیں سرکاری اور لوگوں کی ذاتی املاک پر دھاوا بول سکتے ہیں۔ جو ہمارے جی میں آتا ہے ہم بول سکتے ہیں۔ ہم جب چاہیں، جس کی چاہیں پگڑی اچھال سکتے ہیں۔ ہم جہاں جہاں گھیرا ڈال کر چچڑ کالونی اورکیچڑ کالونی بناتےہیں وہاں ہمارا راج چلتا ہے۔ ہم اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ کسی کو موت کی سزا تک دے سکتے ہیں۔
ہم جھلے احسان فراموش نہیں ہیں۔ ہم جھلوں کی مت ماری ہوئی نہیں ہے۔ ہمیں کیا پڑی ہے کہ مستقل حکمرانوں سے ٹکرلیں۔ آخر کار ہر حال میں حکومت تو ان کو ہی کرنی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین