عارف امجد
ہر علاقے کی اپنی تہذیب ،ثقافت،رہن،سہن اورطرز تعمیر ہوتی ہے، جن کے ملاپ وہم آہنگی سے شہر وجود میں آتے ہیں ،اہل دانش کہتے ہیں جس طرح ہر علاقے کی ثقافت جدا ہوتی ہے اسی طرح ہر شہر کی اپنی ایک الگ پہچان ہوتی ہے ۔حیدرآبادکو اگر مہران کادل کہا جائے ، تو بے جا نہ ہوگا، اس گنجان آباد شہرکادل ’’شاہی بازار‘‘ ہے۔اس بازار کی یوں تو بہت سی خصوصیات ہیں، مگرپہلے اس کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں شاہی بازار قلعہ حیدرآباد کے سامنے سے شروع ہوتا ہے اور سینٹرل جیل پراختتام پزیر ہوتا ہے۔
بازارکے دونوں اطراف پورا حیدرآباد واقع ہے۔شاہی بازار ایک بالکل سیدھی سڑک کی طرح ہے ،اس کے دونوں اطراف دکانیں ہیں، یہ بازار کلہوڑوں اور تالپوروں نے بنوایا تھا، مگر ڈھائی سو سال گزرنے کے بعد آج بھی قائم ہے۔جب غلام شاہ کلہوڑونے حیدآباد کو، آباد کیا تو انہوں نےعوام کو قلعے کے باہراور خود قرابت داروں اور اشرافیہ کے ساتھ قلعے میں رہنے لگے اور باہر انہوں نے پیشوں کے لحاظ سے بستیاں آباد کیں ، خدا آباد، جو کلہوڑوں کا دارالخلافہ تھا ،وہاں سے ہنر مندمزدور اور دوسرے لوگوں کو یہاں لاکر آباد کیا، یہ شہر کلہوڑوں کے دور سے پہلے صرف قلعہ حیدرآباد تک محدود تھا اور اس وقت اس کا نام نیرون کوٹ تھا۔
تالپوروں نے جب ہالانی کی جنگ میں کلہوڑوں کو شکست دے کر قلعہ کو فتح کیا تو،میر فتح علی خان تالپورنے قلعے کے دروازے کے بالکل عین سامنے شاہی رستوں پر’’ تالپور بازار‘‘ بنوایا جو شاہی بازار کے نام سے اب تک جانا جاتا ہے ۔شاہی بازاربالکل سیدھا اور سائے دار بازار تھا، ایسے بازار کو انگریزی میں ’’آرکیڈ‘‘ کہتے ہیں ،اس کے دونوں جانب آبادیاں وجود میں آئیں ،بازار کے مشرق میں زیادہ تر مسلم آبادیاں تھیں اور مغرب میں ہندو بڑی تعداد میں آباد تھے ۔
غلام شاہ کلہوڑو نے حیدرآباد کو آباد کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا تھاکہ قلعے کے صدر دروازے کے سامنے محلے آباد کیے جائیں ،بعد میں میران تالپور نے ایک لمبے بازار کا اضافہ کیا، جو شاہی بازار کہلایا ، یہ تقریباً ایک میل لمبا ہے۔بازار وہ جگہ ہوتی ہیں جہاں انسان کو ضرورت کی ہر اشیاء بآسانی ملتی ہے،کارخانوں ، فیکٹریوں اور دوسرے علاقوں میں تیار ہونے والا سامان بازاروں میں لایا جاتاہے، جہاں سے لوگ انہیں خرید کر اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔شاہی بازار بھی ایک ایسا ہی بازار ہے جہاں ایک ہی جگہ تمام چیزیں بآسانی دست یاب ہوتی ہیں۔
اس میں تقریباً 2500دکانیں ہیں، جب بازار میں داخل ہوں گے،تو سب سے پہلے حاجی ربڑی وا لے کی دُکان آتی ہے، جو تقسیم ہندکے وقت سے قائم ہے،قیام پاکستان سے بھی پہلےیہ بازار اسی حالت میں تھا، اب بس اتنافرق پڑا ہے کہ پہلے ان دکانوں کے مالک ہندو تاجر تھے اور اب مسلمان ،جب حاجی ربڑی والے کی دکان سے تھوڑا آگے چلیں، تو سنار یا صرافہ بازار شروع ہوجاتاہے، جہاں سونے کی تجارت ہوتی ہے ، پورے حیدر آباد میں اس سے بڑاکوئی صرافہ بازار نہیں۔تھوڑا اور آگے چلیں،تو مختلف اشیاء کی دکانیں نظر آئیں گی۔یہاں ہوزری کا سامان، پیپر ڈیکوریشن، گھڑیاں، جوتے، چپل ،شیشے، کپڑا ،بتاشے، سندھی ٹوپی، رومال، دھاگے، گرم بستر غرض کہ ضرورت کا ہر سامان میسر ہے۔
بتاشہ گلی
شاہی بازار میں، بتاشہ گلی بے حد مشہور ہے، یہ گلی کھنبانی گھٹی ،ریشم گلی کہ سامنے ہے اس گلی میں بتاشے،ریوڑیاں،گجک اورکھانے کی دیگر اشیاءملتی ہیں، اسی وجہ سے اسے بتاشہ گلی کہتے ہیں۔
مکھ کی گھٹی یامکتی گلی
یہ گلی فقیر کے پڑ اور سرور قبی لین کے درمیان واقع ہے، یہاں کسی زمانے میں مکھی گوبندرام کے آباؤاجداد رہا کرتے تھے ،اس لیےاس کانام مکھین کی گھٹی پڑا لوگ کہتے ہیں کہ دیوان شوتی رام جو کہ ہندو پنچائیت کا مکھیا، تھا اس گلی میں رہتا تھا اسی وجہ سے اس کانام مکھ کی گھٹی پڑا۔ مگر اب اس کا نام مکتی گلی ہے اور یہاں کھلونے ملتے ہیں ،مگر کھلونے ہول سیل کے حساب سے ملتے ہیں ، جودوسرے علاقوں کے دکان داریہاں سے خرید کر لے جاتے ہیں۔
آڈوانی گھٹی
یہ چھوٹی گھٹی سے شروع ہو کر شاہی بازار میں ختم ہوتی ہے، اس گلی میں ادویہ کی دکانیں ہیں۔
چھوڈکی گھٹی یاچھوٹی گھٹی
یہ گلی جو اب چھوٹی گھٹی کے نام سے مشہور ہے، کبھی چھوڈ(چھال)اور چمڑے کے کاروبار کی وجہ سے ’’چھوڈ‘‘کہلاتی تھی، کیوں کہ سندھی میں پیڑ کی چھال کو چھوڈکہتے ہیں، جو چمڑا رنگنے کے کام آتی ہے چھوڈ سے پہلے اسکا نام ’’سمی چاڑی‘‘ تھا۔
معاشرے کی ترقی کی بنیاد اس کے،معاشی حالات پر منحصر ہوتی ہے، بلاشبہ شاہی بازارکا شمار قدیم ترین بازاروں میں ہوتا ہے، کسی زمانے میں اس کی رونق اور چرچےپورے ہندوستان میں ہوتے تھے،اسےسندھ کا معاشی حب کہا جاتا تھا، مگر اب حالات یکسر بدل چکے ہیں مقامی دکاندار وں کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کے معاشی حالات بہتر ہونے کہ بہ جائے پستی کی طرف جارہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ چند برس پہلے تک شاہی بازارصبح 9بجے کھلا کرتا تھا ،سویرے ہی سے لوگ یہاںخریداری کرنے کے لیے آجاتےتھے، اندورون سندھ کے لوگ یہاں سے اپنا مال خریدکر ٹرانسپورٹ پر بک کرواتے تھے اور یہ سلسلہ دوپہر تک چلتا تھا ،دور دراز کے وہ لوگ جن کی اپنے علاقوں میں دکانیں تھیں وہ اپنی دکانوں کے لیےمال لیا کرتے تھے اور دوپہر کے بعد شہری لوگ خریداری کے لیے آتے تھے اور رات 9بجے تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا ۔
اتنا کام ہوتا تھا کہ بیٹھنے کی فرصت نہیں ملتی تھی،مگر اب سارا دن گاہکوں کی راہ تکتے گزر جاتی ہے ،دکانوں کا کرایہ اور خرچہ نکالنا تک محال ہوگیا ہے، حالاں کہ شاہی بازار میں آج بھی دوسرے علاقوں کی مارکیٹوں کے مقابلہ سامان سستا ملتا ہے۔
اس بازار میں دکانوں کی قطار در قطار یں ہیں اگر کوئی گھڑی کی دکان ہے ،تو آمنے سامنے گھڑی والے ہی بیٹھے ہیں ،اگر کپڑے والے ہیں ،تو ان کا بھی یہی حال ہے ،غرض کہ قطار در قطار ایک ہی آئیٹم کی کئی کئی دکانیں نظر آئیں گیں۔معاشی حالات کی پستی کا سب سے بڑا سبب مہنگائی ہے ،جس نے لوگوں کی قوت خرید ختم کردی ہے اور شاہی بازار کے علاوہ شہر میں دوسری مارکٹیں بہت بن گئی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں نے یہاں آنا کم کردیا ہے، اب غریب طبقہ ہی اس مارکیٹ کا رخ کرتا ہے۔
شاہی بازارمیں چلنا پھرنا بہت مشکل کام ہے،کیوں کہ یہ انتہائی طویل بازار ہے، اس میںکئی گلیاں ، مکانات ہیں، جن میں رہنے والوں کی گزرگاہ یہی بازار ہے۔ ان تمام تر وجوہات کی وجہ سے یہاں کے معاشی حالات بہت متاثر ہوئے ہیں،یہ تمام وجوہات مل کر شاہی بازار میں گاہکوں کا راستہ روکتے ہیں، جس کابراہ راست نقصان دکان داروں کو ہوتا ہے۔
کسی زمانے میں شاہی بازارآئینے کی طرح چمکتا ہوا نظر آتا تھا، باقاعدگی سے جمعدارآیا کرتے تھے، اورصفائی ستھرائی ہوتی تھی، مگر آج یہ عالم ہے کہ مٹی تلے دبے بازار کا فرش نظر نہیں آتا، ہرچند قدم کے فاصلے پرکچرے کا ڈھیر نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے دکان دار اور گاہک دونوں ہی پریشان نظر آتے ہیں۔یہ تمام وجوہات اس بازارکی رونقوں کو ماند کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ،مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ اس کی مرمت کرائیں تاکہ اس تاریخی اہمیت کے حامل بازارکی رونقیں ماند نہ پڑیں، کیوں کہ یہ ہمارے ورثے کا حصہ ہے۔