• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 
صلئہ رحمی اور رشتےداروں سے حُسنِ سلوک

پیر زادہ خالد رضوی امروہوی

ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور اللہ کی بندگی اختیار کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور حسن سلوک سے پیش آؤ، والدین کے ساتھ، قرابت داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ، پڑوسیوں کے ساتھ خواہ قرابت والے ہوں خواہ اجنبی، نیز آس پاس کے بیٹھنے والوں اور مسافروں کے ساتھ اور جو (لونڈی غلام یا ملازم) تمہارے قبضے میں ہوں، ان کے ساتھ (کیونکہ) اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اترائیں اور بڑائی مارتے پھریں۔(سورۃ النساء ) قرآن پاک میں ہر جگہ ایمان اور عمل صالح کا تذکرہ ساتھ ساتھ ملتا ہے ۔ نیک عمل کیا ہے؟ یہ کہ انسان رشتے داروں، دوست احباب اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ محتاجوں، کمزوروں، بے کسوں، غریبوں کی مدد کرے ۔ بھوکوں کو کھانا کھلائے ۔ بیماروں کی عیادت کرے ۔چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا ادب کرے ۔اسلام میں رشتے داروںسے حسن سلوک کی بڑی اہمیت ہے۔اسلامی معاشرے میںافراد کا اپنے خاندان اور رشتے داروں سے زیادہ تعلق رہتا ہے۔خاندان میں غمی وخوشی، دکھ سکھ کی کوئی بھی تقریب ایسی نہیں ہوتی جس میں رشتے داروںکو شریک نہ کیا جائے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:’’بے شک،اللہ تعالیٰ عدل اوراحسان اوررشتے داروںکے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے‘‘۔(سورۃ النحل)اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کے بعدرشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیاہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اورجب ہم نے بنی اسرائیل سے عہدلیاکہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرواور ماں باپ کے ساتھ (ہمیشہ )بھلائی(حسن سلوک) کرو اور رشتے داروں سے(بھی حسن سلوک کرو) ‘‘۔(سورۃ البقرہ)

حضرت علیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:’’(ایک) مسلمان کے(دوسرے) مسلمان پر چھ حقوق ہیں:٭جب کوئی مسلمان ملے تو اسے سلام کرنا۔ ٭کوئی مسلمان دعوت دے تو اسے قبول کرنا۔٭کسی مسلمان کو چھینک آئے تو اس کا جواب دینا ۔٭کوئی مسلمان بیمار ہو تو اس کی عیادت کرنا۔٭کوئی مسلمان مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جانا۔٭ہر مسلمان کے لیے اس چیز کو پسند کرنا جسے خود اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(جامع ترمذی،مشکوٰۃ المصابیح)

رشتے داروںکا بنیادی حق یہ ہے کہ ان سے صلہ رحمی اور حسن سلوک کیا جائے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو او ر ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور رشتے داروں سے۔ ‘‘(سورۃ النساء)

حضور اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق صلہ رحمی سے انسان کی عمر اور رزق میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز کرے اور اس کے رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے اور(رشتے داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کرے‘‘۔

اسی طرح ایک اورحدیث میںفرمانِ رسول ﷺ ہے:’’جسے پسند ہو کہ اس کی روزی میں وسعت اور عمر میں اضافہ ہو،اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جانتے ہوصلہ رحمی کیا ہے؟ صلہ رحمی یہ نہیں کہ کوئی تم سے ملے اور تم بھی اس سے ملو یہ تو ادلے کا بدلہ ہے۔ صلہ رحمی حقیقت میں یہ ہے کہ کوئی تم سے رشتہ توڑے، مگر تم اس سے رشتہ جوڑو‘‘۔(مشکوٰۃ )

رشتے داروں کے برے سلوک کے باوجود ان سے حسن سلوک کیا جائے اور اگر وہ ناتا توڑنا چاہیں تو بھی ان سے رشتہ قائم ودائم رکھا جائے اور اس کے لیے کوشش کی جائے کہ رشتہ کسی صورت بھی نہ ٹوٹنے پائے اور ناحق رشتہ توڑنے والے کا کیامقام ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد رسول ﷺ ہے:’’(ناحق) رشتہ توڑنے والا اور (ناحق) قطع تعلق کرنے والاجنت میں نہیں جائے گا‘‘۔ (صحیح بخاری)ایک روایت میں آتا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں کہ وہ اپنے بھائی سے بغیر کسی شرعی وجہ کے تین دن سے زیادہ تک قطع تعلق کرے۔چناںچہ حضرت ابوایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’ آدمی کے لیے جائز نہیںہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کیے رکھے کہ دونوںکی ملاقات ہوتوایک دوسرے سے منہ پھیرلیں اور ان دونوں میں سے بہترشخص وہ ہے جو سلام میںپہل کرے‘‘۔(صحیح بخاری ) حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’جنت میں کاٹنے والا (قطع رحمی کرنے والا)داخل نہیں ہو گا، یعنی رشتے ناتے توڑنے والا۔‘‘(صحیح بخاری) قرآن مجید میں قطع رحمی اور فساد فی الارض کرنے والوں کےلئے لعنت کی وعید ہے:فرمایا گیا’’ اور جن تعلقات کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، انہیں توڑتے ہیں۔‘‘(سورۃالرعد)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ صلہ رحمی کرنے والا شخص وہ نہیں ہے جوبرابر کا معاملہ کرتا ہے، لیکن اصل رحم کرنے والا شخص وہ ہے کہ جب اس کی رشتے داری قطع کی جائے تو وہ اسے ملائے۔‘‘ (صحیح بخاری) رسو ل اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے جو تم سے قطع تعلق کرے، تم اس سے تعلقات جوڑے رکھو اور جو تمہارے ساتھ برا سلوک کرے، تم اس سے اچھا سلوک کرو جو تمہیں محروم کرے ،اسے عطا کرو۔ایک مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا: کامل صلہ رحمی کرنے والا وہ شخص نہیں ہے جو بدلہ لینے والا ہو( یعنی احسان کے بدلے احسان کرتا ہو) کامل صلہ رحمی کرنے والا تو وہ شخص ہے کہ جب اس کے ساتھ قطع رحمی کی جائے، تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺ ! میرے قرابت دار ہیں،میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ قطع رحمی کرتے ہیں، میں ان سے حسن سلوک کرتا ہوں ،وہ میرے ساتھ بد سلوکی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ بردباری کا برتائو کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت کا معاملہ کرتے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا تم کہہ رہے ہو تو گویا تم انہیں ریت پھنکا رہے ہو اور جب تک تمہاری یہ حالت رہے گی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارا ایک مدد گار رہے گا۔(صحیح مسلم)حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جس قوم میں ایک شخص بھی قطع رحمی کرنے والا ہو، اس (قوم) پر رحمت نازل نہیں ہوتی۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پریقین رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام اور رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ صلہ رحمی کا یہ نہایت اہم اور بڑا فائدہ ہے جس کی افادیت ہر صاحب عقل سمجھتا ہے۔صلۂ رحمی کا اُخروی فائدہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے، جس میں ارشاد ہے ’’ لوگو! ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کرو،اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے لوگوں کو کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کیا کرو اور ایسے وقت میں جب عام لوگ رات میں نیند کے مزے لے رہے ہوں، نماز پڑھا کرو (اور ان اعمال کے نتیجے میں) حفاظت اور سلامتی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے جنت میں پہنچ جائو گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین