• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں آج بھی ایسے متعدد سیاسی انتخابی حلقے ہیں، جہاں خواتین کا ووٹ ڈالنا ناصرف معیوب سمجھا جاتا ہے، بلکہ خواتین کے ووٹ ڈالنے پر بھی پابندی ہے۔ تاہم ہمارے اسی قدامت پسندمعاشرے میں امید کی کرن اب بھی باقی ہے۔ یہ اُمید ان باہمت اور ذہین خواتین سیاست دانوں کے مرہونِ منت ہے، جنھوں نے سیاست کے میدان میں دیگر خواتین کے لیے نئی راہیں کھولیں اور کئی رکاوٹیں عبور کرکے پاکستان کے سیاسی سفر میں نئی تاریخ رقم کی ہے۔

بے نظیر بھٹو 

پاکستان کی روایت شکن خواتین سیاست دان

بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں سیاست کے میدان میں کئی نئے ریکارڈ قائم کیے اور کئی فرسودہ روایات کو توڑا۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون سیاسی رہنما تھیں۔ بے نظیر بھٹو دو بار وزیراعظم پاکستان کے منصب پر فائز رہیں؛ پہلی بار 1988سے 1990تک اور دوسری بار 1993سے 1996تک۔ تاہم بدقسمتی سے دونوں بار انھیں میعاد مکمل کرنے سے پہلے ہی گھر بھیج دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیز، ہارورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں وہ آکسفورڈ یونین کی صدر بھی رہیں۔ 1977میں ضیاالحق نے جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹا تو پیپلزپارٹی کا کنٹرول بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے سنبھالا۔ انھوں نے بحالی جمہوریت کی تحریک (Movement For Restoration of Democracy)جسے عمومی طور پر ایم آرڈی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، بھی شروع کی۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں بے نظیر بھٹونے خودساختہ جلاوطنی بھی اختیار کی۔ (اس سے پہلے بے نظیر ، ضیاالحق کے دور حکومت میں 1984سے 1986 تک خود ساختہ جلاوطنی کاٹ چکی تھیں)۔ آٹھ سال بعد 18اکتوبر 2007کو بے نظیر نے جلاوطنی ختم کرتے ہوئے کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر قدم رکھا، جہاں سے انھوں نے اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ ابھی چند کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ کارساز کے مقام پر ان کے قافلے پر بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا گیا۔ 

حملے میں بے نظیر بھٹو تو محفوظ رہیں تاہم 180افراد جاں بحق اور 500سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ کسی بھی سیاسی قافلے پر ہونے والا سب سے خوفناک دہشت گردانہ حملہ تھا۔ اس حملے کے دو ماہ بعد 27دسمبر2007کو بے نظیر بھٹو پر لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد باہر نکلتے ہی ایک اور دہشت گردانہ حملہ کیا گیا، جس میں وہ شہید ہوگئیں۔ بے نظیر بھٹو نے دو کتابیں بھی تحریر کیں۔ Daughter of Destiny: An Autobiographyان کی پہلی کتاب تھی، جسے بعد میں Daughter of East: An Autobiographyکے نام سے دوبارہ شائع کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی دوسری کتاب Reconciliation: Islam, Democracy, and the Westان کی شہادت کے بعد 2008میں شائع ہوئی۔

حنا ربانی کھر

پاکستان کی روایت شکن خواتین سیاست دان

حناربانی کھر کو ناصرف پاکستان کی کم عمر ترین وزیر خارجہ بننے کا اعزاز حاصل ہے، بلکہ پاکستان کی سب سے پہلی خاتون وزیر خارجہ بننے کا ریکارڈ بھی ان ہی کے پاس ہے۔ حنا ربانی کھر کے بعد بھی کوئی خاتون ابھی تک پاکستان کی وزیر خارجہ نہیں بن سکی ہیں۔ حنا ربانی کھر، پاکستان پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں فروری 2011سے مارچ 2013تک پاکستان کی وزیر خارجہ رہیں۔ اس سے پہلے وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے اسی دور حکومت میں پاکستان کی وزیر مملکت برائے خزانہ کے عہدے پر فائز تھیں۔ اس سے یاد آیا کہ حنا ربانی کھر کو پاکستان کا وفاقی بجٹ پیش کرنے والی اولین خاتون کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ حنا ربانی کھر نے بزنس کی تعلیمAmherst اور لمز سے حاصل کی ہے۔ 2013میں حنا ربانی کھر سیاست سے ریٹائرہونے کا اعلان کرچکی ہیں۔

کرشنا کماری

پاکستان کی روایت شکن خواتین سیاست دان

مارچ 2018میں کرشنا کماری پاکستان کے ایوان بالا، سینیٹ کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ اس انتخاب کے ساتھ ، یہ اعزاز حاصل کرنے والی وہ پاکستان کی پہلی ہندو۔دلت خاتون بن چکی ہیں۔ کرشنا کماری کا بچپن Bondedلیبر میں گزرا، جب کہ ان کے والد سندھ کے صحرائے تھر میں غریب ہاری تھے۔ 2007میں بے نظیر بھٹو نے کرشنا کماری کو خواتین کی مخصوص نشست پر سینیٹر بنوانے کا فیصلہ کیا تھا۔ 11سال بعد بلاول نے کرشنا کماری کو ایوان بالا کا رکن بنا کر اپنی شہید والدہ کے فیصلے کی توثیق کردی ہے۔

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا

پاکستان کی روایت شکن خواتین سیاست دان

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، پاکستان پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں پاکستان کی پہلی خاتون اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ نا ڈاکٹر فہمیدہ مرزاسے پہلے اور ناہی ان کے بعد، کوئی اور پاکستانی خاتون، قومی اسمبلی کی اسپیکر منتخب ہوسکی ہیں۔ فہمیدہ مرزا، اس سے پہلے 1997میں اور 2002میں بدین کے حلقہ این اے 225سےقومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوچکی ہیں۔ فہمیدہ مرزا نے MBBSکی ڈگری لیاقت میڈیکل کالج، جامشورو سے 1982میں حاصل کی۔گریجویشن کے بعد وہ میڈیکل پریکٹس بھی کرتی رہی ہیں۔ فہمیدہ مرزار نے 1997میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور پاکستان پیپلزپارٹی کو جوائن کیا۔ اس سے پہلے وہ پریکٹسنگ ڈاکٹر اور کامیاب بزنس وومن تھیں۔ وہ کراچی میں واقع ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی چیف ایگزیکٹو اور مرزا شوگر ملز کی چیف ایگزیکٹو آفیسر رہ چکی ہیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا تعلق سندھ کے ایک بااثر سیاسی خاندان سے ہے۔ ان کے والد قاضی عبدالمجید عابدسابق وفاقی اور صوبائی وزیر رہے ہیں، جب کہ ان کے چچا قاضی محمد اکبر صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔

تازہ ترین