فلم ایک طاقتور میڈیم ہے، جس کے ذریعے دنیا تک وہ کہانیاں پہنچائی جاسکتی ہیں، جو ابھی تک پردے میں ہیں،اور جنھیں دیکھ کر لوگ تبدیلی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوسکتےہیں۔ پاور فل مناظر اور جذباتی بیانیہ، خصوصاً ان افراد کے لیے کہانی سنانے کا زیادہ مؤثرطریقہ ثابت ہورہا ہے، جو اپنے کام کے ذریعے انسانی حقوق کی پرچار کرتے ہیں۔یہاں آج کچھ ایسی دستاویزی فلموں کا ذکر کریں گے، جن کے ذریعے دنیا کی نمایاں خواتین کی جدوجہد اور اس کے ردِعمل میں ان خواتین کی جانب سے لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کا علم بلند کرنے کو موضوع بنایا گیا۔
He Named Me Malala
15سال کی پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی کو 2012میں جب طالبان نے نشانہ بنایا تو دنیا سکتے میں آگئی۔ طالبان کے بڑھتے مظالم کے باوجود، لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے یوسف زئی فیملی بہت کھل کر بات کرتی تھی، تاہم انھیں یہ اندازہ نہ تھا کہ طالبان ایک لڑکی کو مارنے کی حد تک جاسکتے تھے۔ خوش قسمتی سے معجزانہ طور پر زندگی اور موت کی جنگ میں ملالہ نے زندگی جیت لی۔ صرف یہی نہیں، وہ تاریخ میں نوبل انعام جیتنے والی کم عمر ترین شخصیت بھی بن گئی۔ یہ دستاویزی فلم ناصرف ملالہ کی غیرمعمولی بہادری کا جائزہ لیتی ہے، بلکہ اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح اس کے والد کی جانب سےپرورش میں اسے غیرمعمولی سپورٹ حاصل رہی۔
جب دستاویزی فلم کا ڈائریکٹرDavis Guggenheimملالہ سے پوچھتا ہے کہ ، ایک مشہور جنگجو خاتون سے متاثرہونے کے باعث جب اس کے والد نے اپنی بیٹی کا نام ملالہ رکھا تو کیا اس چیز نے اس کی زندگی کو بنایا ہے؟ تو ملالہ مسکراتے ہوئے کہتی ہے، ’’میرے والد نے مجھے صرف میرا نام دیا ۔ملالہ۔ انھوں نے مجھے ملالہ نہیں بنایا۔ اس زندگی کا انتخاب میں نے کیا۔ یہ مجھ پر تھونپی نہیں گئی تھی۔ اس زندگی کو میں نے چُنا اور اب مجھے اسی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے‘‘۔ملالہ آگے جاکر کہتی ہے، ’’ایک لمحہ ایسا آتا ہے جہاں آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آپ کو خاموش رہنا ہے یا اُٹھ کھڑا ہونا ہے۔ ایک کتاب، ایک بچہ،ایک قلم دنیا کو بدل سکتے ہیں‘‘۔
What Happened Miss Simone
انسانی حقوق کے رہنما Medgar Eversکے قتل اور برمنگھم چرچ دھماکے کے بعد1964میں جب سائمون کیلی کا سیاسی نوعیت کا گانا'Mississippi Goddam' منظرعام پر آیا تو امریکا میں ایسے ریڈیو اسٹیشن ناہونے کے برابر تھے، جو اسے چلانے کوتیار تھے۔ What Happened, Miss Simoneاسی سائمون کیلی کی جدوجہد پر بنائی جانے والی دستاویزی فلم ہے۔ اس فلم کی ایگزیکٹو پروڈیوسر سائمون کیلی کی بیٹی لیزا سائمون کیلی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’’میری ماں کا کہنا تھا کہ یہ گانا گانے کے بعد وہ اس قدر غصے میں آگئی تھی کہ اس کی آواز ٹوٹ گئی اور اس کے بعد اس کی آواز میں کبھی وہ اُٹھان واپس نہ آسکی۔
تاہم میں سمجھتی ہوں کہ یہ ان کا غصہ ہی تھا جس کی وجہ سے وہ اس صدمے سے نکل سکی۔ یہ اس کی تخلیقی صلاحیتیں اور جذبہ ہی تھا، جو ان دنوں اسے آگے بڑھنے کا پر اُکساتا رہا‘‘۔اس کے بعد سائمون کیلی انسانی حقوق کے عوامی اجتماعات بشمول 1965کے یادگار سیلما مارچ (Selma March)کا مستقل حصہ بن گئی۔ ’’میں نہیں سمجھتی کہ آپ آرٹسٹ ہوسکتے ہیں جب تک کہ آپ اپنے وقت کے حالات کی عکاسی نہ کریں‘‘۔ سائمون کا کہنا تھا۔سیاسی طور پر اس قدر سرگرم ہونے کے باعث اسے کیریئر میں نقصان بھی اُٹھانا پڑا، تاہم سائمون کا خیال تھا کہ اس سلسلے میں وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ ’’میں سمجھتی ہوں کہ وہ آرٹسٹ جو پیغام پھیلانے کا کام نہیں کرتے ، وہ زیادہ خوش رہتے ہیں، لیکن مجھے اس کے ساتھ ہی رہنا ہے، جو کہ میں ہوں اور یہ کافی مشکل کام ہے‘‘۔اس دستاویزی فلم کو آسکر کے لیے بھی نامزدگی ملی تھی۔
And Still I Rise
شاعرہ،لکھاری، اداکارہ، گلوکارہ اور سماجی کارکن مایا آنجلو ہر لحاظ سے ایک قابلِ ذکر خاتون ہیں۔ ان کی سوانح عمریI Know Why the Caged Bird Sings کو ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے، جس نے متعدد آرٹسٹوںبشمول اوپرا ونفری، الفرے ووڈارڈ اور ڈائریکٹر جان سنگلٹن کو متاثر کیا ہے۔سوانح عمری پر انھیں Pulitzerپرائز، ٹونی ایوارڈ اور گریمی ایوارڈز بھی ملے۔
مایا آنجلو کا بچپن ڈپریشن کی حالت میں ساؤتھ امریکا میں گزرا، تاہم1993میں امریکی صدر بل کلنٹن کی افتتاحی تقریب میں جب انھوں نے اپنی لکھی ہوئی شاعری'On the Pulse of Morning'پڑھی تو دنیا نے اس کا نوٹس لیا۔ اس طرح وہ دوسری خاتون شاعرہ بن گئی، جس نے امریکا کے سربراہ ریاست کی افتتاحی تقریب میں شاعری پڑھی ہو۔
ان کی زندگی پر بننے والی And Still I Riseنامی دستاویزی فلم ان کی شاعری کےتیسرے مجموعے کے نام پر بنائی گئی تھی۔ ان کی شاعری کا تیسرا مجموعہ And Still I Riseسن 1978میں شائع ہوا تھا۔ فلم میں ان کا بیٹا کہتا ہے، ’’میں نے اپنی ماں سے انصاف کے لیے ان کے پیار کو سیکھا اور محسوس کیا۔وہ کہتی، ’اگر آپ کو کسی چیز کے لیے احتجاج کرنا ہے، تو آپ کو سڑکوں پر ہونا چاہیے‘۔ان دنوںوہ آپ کے جسم کو روند کر آپ کے جسم کو سڑکوں پر پھینک کر جاتےتھے۔ وہ کہتی، ’اگر ایک شخص بھی سچ کی بات کرتا ہے تو وہ اکثریت میں ہے‘۔‘‘ مایا آنجلو کی ایک مشہور کہاوت ہے، ’’ہمیں کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، لیکن ہم نے ناکام نہیں ہونا۔ درحقیقت، ناکامیوں کا سامنا کرنا ضروری ہے، تاکہ میں پتہ چلے کہ ہم کیا ہیں‘‘۔