• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اسلام میں وصیت کا حکم اور اُس کی شرعی حیثیت (گزشتہ سے پیوستہ)

اسلام میں وصیت کا حکم اور اُس کی شرعی حیثیت

ڈاکٹرمحمد نجیب قاسمی سنبھلی

حضور اکرم ﷺ کی شفا کی دعا کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تقریباً پچاس سال تک حیات رہے اور انہوں نے عظیم الشان کارنامے انجام دیئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے ہی ۱۷ ہجری میں کوفہ شہر بسایا جو بعد میں علم وعمل کا گہوارا بنا۔آپ ہی کی قیادت میںایران جیسی سپر پاور کو فتح کیا گیا۔ آپ نے ہی دریا ئے دجلہ میں اپنے گھوڑے ڈال دیے تھے۔

ناجائز وصیت: ایک تہائی سے زیادہ جائیداد کی وصیت کرنا۔ وارث کے لئے وصیت کرنا۔ اس نوعیت کی وصیت نافذ نہیں ہوگی۔اولاد یا کسی دوسرے وارث کو اپنی جائیداد سے محروم کرنے کے لئے کسی دوسرے شخص یا دینی ادارے کو وصیت کرنا ناجائز وصیت میں شامل ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کئی لوگ (ایسے بھی ہیںجو) ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت وفرماںبرداری میں زندگی گزارتے ہیں، پھر جب موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں وارثوں کو نقصان پہنچادیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر جہنم واجب ہوجاتی ہے۔ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ نے یہ آیت (سورۃ النساء ۱۲)پڑھی: ’’جو وصیت کی گئی ہو ،اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمے جو قرض ہو ،اس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ (وصیت اور قرض کے اقرار کرنے سے ) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے، اور اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا، بردبار ہے۔ ‘‘(ترمذی باب جاء فی الوصیۃ بالثلث)

وصیت سے متعلق چند مسائل:

۱) کوئی بھی شخص اپنی صحت مند زندگی میں کسی بھی اولاد کی تعلیم، اس کے مکان کی تعمیر وغیرہ پر کم یا زیادہ رقم خرچ کرسکتا ہے، اسی طرح عام صحت مند زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد کی تقسیم کچھ کم یا زیادہ کے ساتھ کرسکتا ہے، تاہم اسے چاہئے کہ حتیٰ الامکان اولاد کے مصارف اور جائیداد کو دینے میں برابری کرے۔ عام صحت مند زندگی میں وصیت یا وراثت کا قانون نافذ نہیں ہوتا۔ 

عام صحت مند زندگی میں اولاد ودیگر رشتے داروں کو دی جانے والی رقم یا جائیداد، ہبہ کہلاتی ہے۔ غرضیکہ عام صحت مند زندگی میں باپ اپنی اولاد میں سے اگر کسی کو مالی اعتبار سے کمزور محسوس کررہا ہے یا اپنے یتیم پوتا یا پوتی کو اپنی طرف سے مخصوص رقم یا جائیداد کا کچھ حصہ دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے۔

۲) ام المؤمنین حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنی وفات کے وقت سوائے اپنے سفید خچر، اپنے ہتھیار اور اپنی زمین کے جسے آپ نے صدقہ کردیا تھا، نہ کوئی درہم چھوڑا ، نہ دینار، نہ غلام نہ باندی اور نہ کوئی اور چیز۔ (بخاری کتاب الوصایا) غرضیکہ آپ ﷺ نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا تھا، اسی وجہ سے ترکہ کے تعلق سے آپ ﷺ کی کوئی وصیت موجود نہیں ہے۔

۳) قرض کو وصیت پر مقدم کیا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے قرض وصیت سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا ہے، (یعنی انسان کے ترکے میں سے سب سے پہلے قرض کی ادائیگی کی جائے گی، پھر وصیت نافذ ہوگی)، جبکہ تم لوگ قرآن کریم میں وصیت کو پہلے اور قرض کو بعد میں پڑھتے ہو۔ (ترمذی باب ما جاء یبدا بالدین قبل الوصیۃ) مذکورہ بالا ودیگر احادیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرض کی ادائیگی وصیت پر مقدم ہے۔

۴) شرعاً وارث کو وصیت نہیں کی جاسکتی ، لیکن اگر کسی شخص نے وارثین میں سے کسی وارث کو وصیت کردی اور تمام ورثاء میت کے انتقال کے بعد اس کی وصیت پر عمل کرنے کی اجازت دے رہے ہیں تو وہ وصیت نافذ ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت کردی اور تمام ورثاء میت کے انتقال کے بعد اس کی وصیت پر عمل کرنے کی اجازت دے رہے ہیں تو وہ وصیت نافذ ہوجائے گی۔

۵) تحریر کردہ وصیت نامہ میں تبدیلی بھی کی جاسکتی ہے، یعنی اگر کسی شخص نے کوئی وصیت تحریر کرکے اپنے پاس رکھ لی، پھر اپنی زندگی میں ہی اس میں تبدیلی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔

ایک اہم نقطہ: جس طرح ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کا مال وجائیداد صحیح طریقے سے اولاد اور دیگر وارثین تک پہنچ جائے اور اولاد اس کے مال وجائیداد کا صحیح طریقے سے استعمال کرکے اس میں مزید بڑھوتری کرے۔ اسی طرح ہمیں اس بات کی بھی فکر وکوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے مرنے کے بعد ہماری اولاد کیسے اللہ کے احکام ونبی اکرم ﷺ کے طریقے کے مطابق زندگی گزارے؟ تاکہ وہ مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ والی زندگی میں کامیاب ہوسکیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کے لئے ان کی وصیت کا ذکر فرمایا ہے: اور اسی بات کی ابراہیم ؑنے اپنے بیٹوں کو وصیت کی، اور یعقوبؑ نے بھی (اپنے بیٹوں کو) کہ: ’’اے میرے بیٹو! اللہ نے یہ دین تمہارے لئے منتخب فرمالیا ہے، لہٰذا تمہیں موت بھی آئے تو اس حالت میںآئے کہ تم مسلم ہو‘‘۔ کیا اُس وقت تم خود موجود تھے جب یعقوب ؑکی موت کا وقت آیا تھا، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ اُن سب نے کہا تھا کہ ہم اُسی ایک رب کی عبادت کریں گے، جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے باپ دادا ابراہیمؑ، اسماعیلؑ اور اسحاقؑ کا معبود ہے۔ اور ہم صرف اسی کے فرماںبردار ہیں۔ (سورۃالبقرہ۱۳۲ و ۱۳۳)

دوسرا اہم نقطہ: جیسا کہ ہم اپنی زندگی کے تجربات سے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر شخص اپنی زندگی کے آخری وقت میں بہت اہم اور ضروری بات ہی کرتا ہے۔ آپﷺ کے داماد اور چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کی زبان مبارک سے نکلا آخری کلام (نماز، نماز اور غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ) تھا۔ (ابو داود، مسند احمد)

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی: نماز، نماز۔ اپنے غلاموں (اور ماتحت لوگوں) کے بارے میں اللہ سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق ادا کرو۔ جس وقت آپﷺنے یہ وصیت فرمائی آپﷺ کی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ (مسند احمد)

اس سے ہم نماز کی اہمیت وتاکید کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنے آخری وصیت نماز کی پابندی کے متعلق کی،لہٰذا ہمیں پوری زندگی نماز کا اہتمام کرنا چاہئے۔

تازہ ترین
تازہ ترین