اسلام آباد (نمائندہ جنگ) وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ صحافت پر سنسر شپ عائد ہے، اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو گونگا کر دیا جاتا ہے، اخبارات سفید نہیں، گونگے چھپ رہے ہیں، ملک کے تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم کی آواز کو بھی میوٹ (Mute) کر دیا جاتا ہے، ہم نے اپنے آپ کو خیالی دنیا میں رکھ کر اپنی عزت کرانے کے طریقے ڈھونڈے ہوئے ہیں، کوئی بھی طاقت پریس کی آزادی کو مفلوج کرنے کی کوشش کرے گی تو سیاسی قوتوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا، ہم کب تک منے کے ابا کے ڈر سے استعفے دیتے رہیں گے، ہم آفس میں رہتے ہوئے اس کا مقابلہ اس ایوان کے ساتھ اکٹھے کیوں نہیں کرسکتے،جمعہ کو ایوان بالا میں گزشتہ روز ڈی چوک میں صحافیوں پر ہونے والے تشدد کے واقعہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ صحافیوں پر تشدد کا واقعہ افسوسناک ہےمگر اس کا پس منظر جاننا بہت ضروری ہے، تحقیقات کیلئے پی آئی او کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی ہے جس کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے گی جبکہ وزیر داخلہ بھی ایوان میں اس واقعہ کی وضاحت کریں گے، تحقیقاتی رپورٹ آج مکمل ہو جائے گی۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں آج بھی سنسر شپ ہے، ذوالفقار علی بھٹو شہید کو پھانسی ہوئی تو اخبارات سے خبریں اتار لی جاتی تھیں، آج اس واقعہ کے چالیس سال اور ملک کے ستر سال مکمل ہونے پر بھی صورتحال یہ ہے کہ اخبارات گونگے چھپ رہے ہیں،ملک میں خوف طاری ہے، جس دور سے گزر رہے ہیں، شرمندگی کا موقع ہے، بولنے کی اجازت چوائس کے ذریعے دی جا رہی ہے جبکہ آزادی صحافت کوئی چوائس نہیں بلکہ بنیادی حق ہے، انہوں نے کہا کہ بھیانک سنسر شپ عائد ہے،پیمرا کے چیئرمین کو منتخب کرنا تھا، میں بھی اس کمیٹی کی ممبر تھی، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی طرف سے کہا گیا کہ وزیر اطلاعات بیان دینے میں مصروف ہوں گی اسلئے انہیں کمیٹی سے نکال دیا جائے، مجھے میرا کام ہی نہیں کرنے دیا جائے اور صحافی اور سول سوسائٹی کا نمائندہ اپنی بات ہی نہ کر سکے تو یہ کیسی صورتحال ہے، اس ایوان کے سابق رکن افراسیاب خٹک کا آرٹیکل بھی آج اخبار میں نہیں چھپ سکا، اگر صحافیوں، لکھاریوں اور ایڈیٹرز کے آرٹیکلز نہیں چھپ رہے اور سکرینوں، اخباروں اور جمہوری آوازوں کو گونگا کیا جا رہا ہے تو اس ذہنی تشدد اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر بھی آواز بلند کی جانی چاہئے، ملک میں کمپرومائزڈ جمہوریت چل رہی ہے، جمہوریت آکسیجن ٹینٹ میں کبھی مضبوط نہیں ہو گی، حکومت اپاہج اور مفلوج ہو کر نہیں چلائی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا،سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ جو واقعات وزیر اطلاعات نے بیان کئے ہیں ان سے ہمدردی ہے اور پوری اپوزیشن آزادی صحافت کیلئے قربانی دینے کو تیار ہے، میں ان کی جگہ ہوتا تو ضرور استعفٰی دے دیتا، آج جو حالات گھمبیر ہو گئے ہیں اس کا بھی جائزہ لینا چاہئے، اگر کسی کا کالم روک دیا گیا ہے اس کا نام بتا دینا چاہئے، رضا ربانی نے کہا کہ صحافیوں پر تشدد کے واقعہ کو 12گھنٹے گزر چکے ہیں آج امید تھی کہ وزیر صاحبہ حقائق کو سامنے رکھیں گی، ذمہ داری وزیر داخلہ کو منتقل کر دی گئی اور بتایا گیا کہ ایلیٹ فورس تیار کی گئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ اساتذہ اور صحافی احتجاج کرتے ہیں تو وہ ایکشن میں آجاتی ہے، فیض آباد میں دھرنا ہوتا ہے وہ ایلیٹ فورس نظر نہیں آتی، اسلام آباد کی رسائی بند کر دی تھی، یہ دوہرا معیار ہے، انہوں نے کہا کہ آرٹیکل اور خبروں کے بارے میں جو بات کی گئی ہے وہ درست ہے کہ آرٹیکل شائع نہیں ہو رہے، چینلوں کی نشریات مختلف علاقوں میں بند کر دی جاتی ہیں جوآرٹیکل 19کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، وہ کون سا قانون ہے جو خفیہ ہاتھوں کو اجازت دے رہا ہے، ہم اس قانون کو ختم کر سکتے ہیں، بغیر کسی آفیشل نوٹس کے یہ کام ہو رہا ہے،سینیٹر ایوب نے کہا کہ وزیر کی باتیں سن کر حیرت ہوئی ہے انہوں نے بے بسی کا اظہار کیا ہے، عثمان کاکڑ نے کہا کہ میڈیا کو اس لئے کنٹرول کیا جاتا ہے کہ پارلیمینٹ کی رپورٹنگ نہ کریں جو کہا جا ے وہ رپورٹنگ کریں، وزیراطلاعات نے صحیح کہا ہے کہ پارلیمینٹ، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو نہیں چلنے دیا جا رہا ہے، سینٹ کی مکمل کارروائی چینلز پر آنی چاہئے، جلسے، جلوس میڈیا پر آنے چاہئیں، انہوں نے چیئرمین سینٹ سے کہا کہ اس حوالے سے چیئر کی طرف سے رولنگ آنی چاہئے، سنیٹر مشتاق نے کہا کہ یہ واقعہ قابل مذمت ہے، ہر صورت میں صحافیوںکو تحفظ دینا چاہئے، صحافت پر حملہ نہ روکا گیا تو یہ آگے بڑھے گا اور جمہوری ادارے بھی اس کی زد میں آجائیں گے، انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ خواتین شوہر کا نام لینے کی بجائے انہیں منے کا ابا کہہ کر پکارتی ہیں، یہاں ایوان میں بھی منے کے ابا کا ذکر کیا جا رہا ہے، نام نہیں لیا جا رہا کھل کر بات کی جائے۔