فرحان ممتاز
ہماری نسل نولکھنے لکھانے سے بہت حد تک ویسے ہی بیگانہ ہے۔ اس پرستم یہ کہ سوشل میڈیا نے تقریر کو تحریر پر مقدم کر دیا ہے ۔خطوط نویسی جو پہلے تعلیمی اداروں میں باقاعدہ سکھائی اور پڑھائی جاتی تھی، اب تقریباً ناپید ہو چکی ہے۔ موبائل فون نے نہ صرف باہمی گفتگو میں آسانیاں پیدا کر دی ہیں بلکہ باہمی خط و کتابت تک کو بھی انتہائی محدود کر دیا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے یا تو فون کے ذریعے منسلک رہتے ہیں یا پیغامات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ گویا ایک نئی طرز کا ابلاغی کلچر ہے۔ موبائل سیٹ میں انگریزی، اردو اور عربی وغیرہ کےکی بورڈز موجود ہیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جدید دور کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے لیکن لکھنے، لکھانے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، ڈائری لکھنا بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔ جس طرح ایک تصویری البم میں ہمارا ماضی سما جاتا ہے، اُسی طرح ڈائری میں زندگی کا سفر خوب صورت لفظوں میں مقید ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی نوجوان روزانہ واقعات کا خلاصہ ضبطِ تحریر میں لانا چاہے،تو اس مشق کو روزنامچہ نویسی کہا جائے گا۔ہمارے والد باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے اور ہمیں بتاتے تھے کہ اس کے بہت سے فوائد ہیں۔ وہ جب تک دن بھر کے حالات کو قلم بند نہیں کرلیتے تھے، تب تک انہیں نیند نہیں آتی تھی۔ اس وقت تو ہمیں ان کی یہ مصروفیت کوئی زیادہ اہم نظر نہیں آتی تھی، لیکن جوں جوں ہم تعلیم کی منازل طے کرتے گئے، ڈائری لکھنے کے فوائد ہماری توجہ اپنی طرف کھینچتے چلے گئے۔ جس سرگرمی کو ہم پہلے ہنسی مذاق میں اڑا دیا کرتے تھے، اس کی قدر و قیمت کا شدت سے اندازہ ہونے لگا۔ڈائری لکھنا بنیادی انسانی خواہش ،ذاتی اظہارکے مقصد کو پورا کرتی ہے۔اگر ایک شخص اپنی ”فکرمندی“ کی بابت کسی سے بات نہیں کر سکتا تو تحریر کے ذریعے اپنی بات کا اظہار کرنا ہی اِسکا متبادل ہو سکتا ہے۔
اس لیے ڈائری لکھنا اکثر جذباتی دکھدرد پر قابو پانے کا بہترین طریقہ خیال کِیا جاتا ہے۔ڈائری کو اپنی زندگی کا تجزیہ کرنے،نئے نصب العین قائم کرنے اور شاید اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے بھی استعمال کِیا جا سکتا ہے۔ اپنے مسائل اور احساسات کو تحریر کرنا ایک شخص کو حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے اور پھر اُن پر غوروخوض کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔امریکن فیڈریشن آف ٹیچرز والدین کو مشورہ دیتی ہےکہ اپنے بچوں کو ڈائری لکھنے کی عادت ڈالیں۔اس سے تحریری اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ ملتا ہے۔ڈائری لکھنا ایک تعلیمی ہنر کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ آپ کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو، ڈائری نگاری نہ صرف آپ کے کام آتی ہے بلکہ اس کا کینوس اور لیول اگر مزید وسیع کر دیا جائے، تو پڑھنے والوں کے لئے ایک سبق آموز دستاویز بھی بن جاتی ہے۔
مغلوں کی تاریخ میں امیر تیمور، بابر، ہمایوں اور جہانگیر نے اپنے اپنے ادوار کے چیدہ چیدہ واقعات خود قلم بند کیے، جو آج تاریخ کے طلباء کے لیےایک بیش قیمت حوالہ گردانے جاتے ہیں۔بہت سے نوجوان یہ سوچتے ہیں کہ ڈائری کیسے لکھیں، تو انہیں ہم یہی مشورہ دیں گے کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، بلکہ ذرا سی توجہ اور محنت سے آپ اس صحت مند عادت کو اپنی زندگی میں شامل کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک پُرسکون جگہ اور اچھی سی نوٹ بُک تلاش کریں۔ سچ ہے کہ الفاظ کا منتظر ایک کورا کاغذ آپ کو تذبذب میں ڈال سکتا ہے،مگر اصل بات تو دیانت دار،بےتصنع اور سادہ ہونا ہے۔آپ خود سے اس طرح کے سوال پوچھ سکتے ہیں،آج میںنے کیا کچھ کِیا تھا؟اس کا مجھ پر کیا اثر ہوا تھا؟میںنے کیا کھایا؟کسے دیکھا میرے عزیزواقارب کی زندگیوں میں کیا واقعات پیش آرہے ہیں؟یا پھر آپ حال سے بھی شروع کر سکتے ہیں،اِس وقت مَیں زندگی کے کس مقام پر ہوں؟ میری منازل کیا ہیں؟
میرے خواب کیا ہیں؟ اس کے بعد بِلاتنقید قلم چلنے دیں۔آپ جتنا چاہیں اُتنا لکھیں۔ آپ جب چاہیں لکھیں۔ واضح اور صاف گو بنیں۔ قواعد یا اِملا کی فکر نہ کریں، کوئی دوسرا آپ کےکام کو نہیں دیکھے گا۔آپ تصاویر،اخبارات کے تراشے یا کوئی بھی ضروری چیز اس میں چسپاں کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کی ذاتی کتاب ہے۔ یہ صاف،ستھری یا گندی، چھوٹی یا بڑی ہو سکتی ہے۔ نیز اس کی تحریر آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔ جب ڈائری لکھنا آپ کو ایک بوجھ محسوس ہونے لگے ،تو اس کا مطلب ہے کہ اس سے آپ کو ناکامی اور مایوسی کا تجربہ ہوگا۔جیسے ایک سائنس دان زیرتحقیق جانداروں میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنے اور ان کا ریکارڈ رکھنے کے لیے، کوئی دستاویز استعمال کرتا ہے ،ویسے ہی ڈائری آپ کو زندگی میں اپنے طرزِعمل اور رجحانات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
ڈائری آپ کی خوشیوں ،دُکھوں،خامیوں اور خوبیوں کو آشکارکرتی ہے۔ ذاتی اظہار کی صلاحیت کو بہتر بناتی ہے۔ البتہ یہ بات ڈائری نویس کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ ڈائری لکھتے ہوئے اپنےنظریے کو کتنا وسیع رکھتا ہے۔ اگر اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر آپ اپنی روزمرہ کی ڈائری مرتب کرنا چاہیں، تو یہ ایک قابلِ تحسین دستاویز بن جاتی ہے۔ میری ڈائری میں کئی صفحات ایسے ہیں، جو واقعاتی تبصروں اور تجزیوں پر مبنی ہیں اور اس لئے کسی خاص اور محدود وقت کے لئے نہیں بلکہ تمام اوقات و حالات میں ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔سدرن میتھیڈسٹ یونیورسٹی ، امریکا کے ماہرین نفسیات کے مطابق روزانہ ڈائری لکھنے سے ذہنی اور جسمانی عوارض میں نمایاں افاقہ ہوتا ہے۔ایک تحقیق کی گئی،جس میں مختلف تکالیف میں مبتلاء طلباء سے کہا گیا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی موضوع پر ڈائری لکھتے رہیں، نتائج نے ظاہر کیا کہ وہ طالب علم ، جو باقاعدگی سے ڈائری لکھتے رہے، ان کا ذہنی تناؤ بھی کم ہو اور انہیں کسی معالج کے پاس جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
ایسے ہی ایک مطالعہ میں طلباء سے کہا گیا کہ وہ اپنے دکھوں کے بارے میں دل کھول کر ڈائری میں لکھیں،ان طلباء کے معائنے سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ ان کی قوت مدافعت میں اضافہ ہو گیا ہے۔جسم میں سفید خون کے خلیات کی تعداد بڑھ گئی جس سے ان میں جراثیم اور وائرس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافے کے علاوہ بلڈ پریشر میں بھی نمایاںکمی واقع ہو گئی۔ ڈائری نویسی کا رجحان اب تقریباً ختم ہو چکا ہے ، تاہم اسے روکا جانا چاہیے، ایک منظم منصوبہ بندی کر کے اس حوالے سے اقدامات کا آغاز کیا جاناچاہیے۔
تعلیمی اداروں میں ڈائری لکھنے کے عمل اور افادیت کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنی چاہیے۔ لکھیں گے تو ڈائری کا سفر جاری رہے گا اور لکھنا بند کردیں گے تو ڈائری کا سفر بھی ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا ڈائری کے اس سفر کوجاری رہنا چاہیے۔