• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچے میں ڈکیت گروہ دوبارہ سرگرم

غلام عباس بھنبھرو ،خیرپور

چند روز قبل خیرپور پولیس کے ڈاکوؤں کے گر وہوں کے ساتھ دو مقابلے ہوئے جن میں دوڈاکوہلاک ہوگئے جب کہ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار شہید ہوگیا۔ڈاکوؤں کے ساتھ پولیس کا پہلا مقابلہ ببرلو کے قریب دریائے سندھ کے حفاظتی بند کے قریب ہوا جہاں سخت مقابلے کے بعدڈاکوفضل لوند مارا گیا ۔پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والا ڈاکو، اغو ابرائے تاوان، قتل اورڈکیتیوںکے 30سے زائدمقدمات میں پولیس کو مطلوب تھا ،جبکہ سندھ حکومت کی جانب سےاس کے سر کی قیمت 10لاکھ روپے مقرر تھی۔ 

ڈاکوؤں کے ساتھ دوسرا مقابلہ پولیس کی گشتی پارٹی کا رانی پور شہر میں ہوا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار ممتازحسین بھنبھرو شہید ہو گیا ۔مقابلے کے دوران ڈاکوؤں نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ان کا تعاقب کیا ۔ ان میں سے ایک ڈاکو شہر کے ایک ہوٹل میں گھس گیا، جسے پولیس نے ہوٹل میں گھس کرہلاک کردیا۔شہید اہلکار ممتاز حسین بھنبھرو کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ ہوئی جس میں پولیس کے چھوٹے بڑے افسران شریک ہوئے۔

جنگ کو موصولہ اطلاعات کے مطابق دریائے سندھ کے بائیں کنارے ببرلو سے سگیوں تک ایک سو کلو میٹر سے زائد اراضی پر گھنے جنگلات پھیلے ہوئے ہیں۔ گزشتہ 4عشروں کے دوران یہاں کئی خطرناک ڈاکوؤں کی ان جنگلات میں پناہ گاہیںرہی ہیں۔ جن خطرناک ڈاکوؤں نے ان جنگلات میں اپنی کمین گاہیں قائم کر کے دہشت پھیلائی، ان میں ڈاکو پنہوں کوری ،سہراب چنو ،احمد سرگانی ،عباس چنو،نظر محمد عرف نظرو ناریجو،گلو گورنمنٹ ،میجر ناریجو،بشیر عرف بشو ناریجو،شبیر عرف شبو ناریجو،بچو جودھ،پرویز ناریجو،جمعو خشک،وزیر خشک،منظور ماچھی،اقبال حاجی ،نازو منگنیجو ،تل پھلپوٹو،رحیم بخش پھلپوٹو،جبار پھلپوٹو،رانو دھاریجو اور دیگرجرائم پیشہ عناصرشامل تھے۔

ماضی میں ان گر وہوں نے قومی شاہراہ سے مسافر بسیں اغوا کر کےمسافروں کا سفر کرنا دشوار کردیا تھا،شہر و دیہات پر دن دھاڑے حملے کر کے تاجروں، سرکاری افسران اور دیگرمال دارافرادکے علاوہ بعض ججزکو بھی اغو اکیا گیا۔صوبائی حکومت کی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ درجنوںاغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہونے لگیں اور صورت حال اس حد تک مخحدوش ہوگئی کہ خیرپو رمیںحکومتی عمل داری مکمل طور سے ختم ہوگئی۔تمام کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئیں اور لوگوں نے شام کے بعد گھروں سے نکلنا بند کر دیا۔ 

لوگ کھلے عام کہنے لگے کہ حکومت ڈاکوؤں کے آگے بے بس ہو چکی ہے جس کی وجہ سے شریف اور امن پسند لوگ ڈاکوؤں کو بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔حکومت کی رٹ کمزور ہونے کے باعث ان کا دائرہ کار کراچی تک جا پہنچا۔ میاں نواز شریف نے پہلی مرتبہ جب اقتدار سنبھالا تو انہیں سندھ کے اندرونی علاقوں میں امن امان کی مخدوش صورت حال کا علم ہوا۔ انہوں نے دریائے سندھ کے دائیں اور بائیں کنارے کے جنگلات میں ڈاکوؤں کے خلاف ملٹری آپریشن کرایا جب ان کی حکومت کی جانب سے جنگلات کے علاوہ شہری علاقوں میں بھی پاک فوج کو ڈاکو گر وہوں کا قلع قمع کرنے کے اختیارات دیئے گئے اور مسلح افواج کے جیالے جوانوں نےکچے کے علاقے میں آپریشن کرکےمتعدد خطرناک ڈاکوؤں کو کیفر کردار تک پہنچاکر امن بحال کرایا۔ 

امن قائم ہونے کے بعد جب آپریشن ختم کیا گیا تو نئے ڈاکو گر وہ پیدا ہوگئے جس کے بعد سابق وزیراعظم نے دوبارہ رینجرز کو تعینات کرکےاس صورت حال پر قابو پایا۔ لیکن ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال سے فائدہ اٹھا کرڈکیت گروہ دوبارہ سرگرم ہوگئے ہیں اور انہوں نےخیرپور کے نزدیک جنگلات میں دوبارہ اپنی کمین گاہیں قائم کرلی ہیں۔ان کے ایک گروہ نے بھتہ نہ دینے پر دو زمینداروں کی گندم اور کھجور کی فصلوں کے گوشے کاٹ ڈالے ۔

کچے کے فیض محمد بنڈو کےعلاقے میں ڈاکوؤں نے علاقے کے زمیندار اعجاز احمد ناریجو کی 20ایکڑ اراضی پر کھڑی ہوئی گندم کی فصل اور کٹائی کر کے کھلیان میں ذخیرہ کی گئی گندم میں آگ لگا کر لاکھوں روپے مالیت کی گندم جلا دی۔اسی طرح کی دوسری کارروائی احمد پور کے علاقے میں کی گئی جہاں ڈاکو علاقے کے معروف زمیندار سکندر علی کھنبڑو کے کھجور کے باغ کے درختوں کے گوشے کاٹ کر فرار ہو گئے۔ زمیندار کا کہنا ہے ڈاکوؤں نے اس سےدولاکھ روپے بھتہ طلب کیا تھا ، عدم ادائیگی پر کھجور کا باغ کاٹ دیا۔ 

 اگرچہ حالیہ دنوں میں پولیس مقابلوں کے دوران کئی ڈاکو ہلاک ہوچکے ہیں لیکن کچے کے جنگلات میں جہاں ان کے گروہ دوبارہ منظم ہورہے ہیں ، پولیس اہل کار ناکافی سہولتوں اور نفری میں کمی کی وجہ سے ان کا قلع قمع کرنے سے قاصر ہیں۔ خیر پور کی سیاسی و سماجی تنظیموں نے حکومت اور آرمی چیف سے اپیل کی ہے کہ ضرب عصب کا دائرہ سندھ کے جنگلات تک وسیع کیا جائے اور یہاں فوجی آپریشن کرکے ڈکیت گروہوں کا مکمل طور سے خاتمہ کیا جائے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین