مسرور حسین ، نامہ نگارباڈہ
وطن پاک گزشتہ کئی عشروں سےجن مسائل سے گزر رہا ہے ان میں سب بڑا مسئلہ د ہشت گردی ہے جوطویل عرصے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلنج بنا ہواتھا، لیکن ہماری عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آپریشن ضرب عضب شروع کیا،جس میں درجنوں فوجی جوان شہیدہوئےلیکن اس کے مثبت نتائج حاصل ہوئے اور وزیرستان سمیت قبائلی علاقوں سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کا خاتمہ ہوا اور ملک کے ہر علاقے میںدہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی جس کے بعد ملک میں امن و امان کا قیام ممکن ہوسکا۔ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ فوجی قیادت کے برعکس ہمارے سول حکم راں کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکے۔
پاکستان کے زیادہ تر علاقے اسٹریٹ کرائمز، خواتین پر تشدد اور بچوں کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات کی لپیٹ میں ہیں لیکن ان کے سدباب کے لیے آج تک کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی۔ اخبارات میں روزانہ ایسے جرائم رپورٹ ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر انسانیت شرم سار ہوتی ہے۔ معصوم بچوں کے لئے اس ملک کوقطعی طور سے غیر محفوظ بنا دیا گیا اور ایسی شرم ناک وارداتیں سننے کو ملتی ہیں کہ دل خون کے آنسوروتا ہے ۔
ایسا ہی ایک دل ہلا دینے والاواقعہ چند روز قبل لاڑکانہ کےحیدری محلہ تھانے کی حدود ایوب کالونی میں پیش آیا۔وہاں 9 سالہ بچی کی تشدد شدہ لاش ایک جوہڑ سےبرآمد ہوئی ہے۔ مذکورہ بچی کو اس وقت اغوا کیا گیاتھا جب وہ منگل کی صبح چیز لینے دکان پر گئی تھی جس کے بعد غائب ہوئی۔ سارا دن گزرنے کےبعد وہ واپس گھر نہیں آئی تو لواحقین نےاس کی تلاش شروع کی لیکن جب اس کا کوئی سراغ نہیں ملا تو پولیس میں رپورٹ درج کرائی گئی۔
لیکن معصوم بچی صائمہ جروار کا پتہ نہ چل سکا ۔ اس کاپتہ اس وقت چلا جب انسان نما درندوں نے اسے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا دبا کرموت کی نیند سلا دیا اور لاش کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک گندے تالاب میں پھینک دی جہاں ایک روز تک پڑے رہنےکے بعد خراب ہوگئی اور اس میں سے بدبو آنےلگی۔
پولیس نے وہاں پہنچ کر لاش کو تحویل میں لے کر اسپتال پہنچایا اور بچی کے والدین کو خبر کی۔ جب والدین نے بچی کی لاش کو دیکھا تواس کی والدہ کی حالت خراب ہوگی اور اس پر غشی کے دورے پڑنے لگے۔ پولیس نے پوسٹ مارٹم کے بعد بچی کی لاش ورثاء کے حوالے کردی۔صائمہ کی میت جب ایوب کالونی میں پہنچی تو علاقے میں کہرام مچ گیا جب کہ والدین اپنے بچوں کی وجہ سے خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ بچی کی تدفین کے وقت عمائدین شہر اور سول سوسائٹی کے افراد بھی موجود تھے، جنہوں نے حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی نااہلی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھاصوبے میں کہیں بھی حکومتی رٹ نظرنہیں آتی، اس نوع کی وارداتیں یہاں روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں۔
ایسے گھناؤنے جرائم کے تدارک کے لیے صوبائی سطح پر بے رحمانہ آپریشن کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر نہ تو کوئی سرکاری افسر وہاں اظہار افسوس کے لیے آیا اور نہ ہی انتظامیہ کے کسی حاکم نے مقتول بچی کے والدین کو انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی۔البتہ واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرکے انہیں عبرت ناک انجام تک پہنچانے کی نویدسنا ئی گئی۔ مگر اب تک نہ توقاتل پکڑے گئے اور نہ ہی قتل کے محرکات کا کچھ معلوم ہوسکا۔
لاڑکانہ ضلع میں یہ پہلی واردات نہیں ہے، اس سے قبل بھی کئی معصوم بچیوں اور بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے لیکن پولیس کی جانب سے محض خانہ پری پر اکتفا کیا گیا جب کہ نہ تو قاتل گرفتار ہوئے اور نہ ہی ان ا انسانیت سوز واقعات کے تدارک کے لیے اقدامات کیے گئے ۔ گزشتہ کچھ ماہ کے دوران اس قسم کی بے ہیمانہ وارداتیں صرف لاڑکانہ کے ضلع میں ہی نہیں ہوئی ہیں بلکہ سندھ کےدیگر شہروں سے بھی ان کی صدائیں سنائی دیتی رہی ہیں لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے ان کے خلاف کوئی مؤثر لائحہ عمل اختیار نہیں کیا گیا۔
سول سوسائٹی کے رہنماؤں کا کہناہے کہ یہ واقعات بھی ملک و قوم کے خلاف دہشت گردی کا حصہ ہیں ، ان واقعات کی وجہ سے عوام میں خوف وہراس پھیلا ہوا جس نے بے چینی کی صورت اختیار کرلی ہے جو کسی وقت بھی کسی ناخوش گوار صورت حال کا سبب بن سکتی ہے۔ سول حکومت کو ان دہشت گرد عناصر کے خلاف ضرب عضب طرز کا آپریشن شروع کرنا چاہئے۔انہوں نے چیف جسٹس پاکستان ، جناب جسٹس ثاقب نثار سے اپیل کی کہ وہ صائمہ جروار کے قتل کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سندھ میں بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیےصوابائی حکومت کو احکامات جاری کریں۔