پچھلے ہفتے پی ٹی آئی کا لاہور میں پاور شو ہوا۔ ویسے تو آج کل ہر سیاسی جماعت اپنا اپنا پاور شو کر رہی ہے اور ان پاور شو میں عوام کو جس طرح لایا جاتا ہے اس پر بات کریں گے توبہت سارے لوگوں کو پتہ نہیں کہاں کہاں درد شروع ہو جائے اور عوام بھی اب کیا کریں ان پاور شوز میں آنے والوں کو جب پانچ سو کی دیہاڑی نہیں ملتی تو وہ پندرہ سو، دو ہزار روپے والے پاور شو میں دیہاڑی لگانے آجاتے ہیں۔ اس طرح تین چار روز ان کے گھر چولہا جل اٹھتا ہے۔ ویسے ان پاور شوز نے عوام کو کیا دیا؟ صرف مہنگائی اور بنیادی سہولتوں سے محرومی۔ یہ محرومیاں بڑھتی ہی جائیں گی۔ یقین کرلیں کوئی حکومت بھی عوام کے مسائل کو کبھی حل نہیں کر پائے گی۔ شیخ رشید نے بالکل درست کہا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بہت بڑا جہاد کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کی بات سے سو فیصد اتفاق ہے۔ اب تو ہر فرد انہیں ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں دے رہا ہے ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ 70برس میں ایسا کوئی چیف جسٹس آف پاکستان، پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا۔ صرف چند ماہ میں ہر محکمے میں ایسی صفائی شروع کردی کہ ہر کوئی حیران ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے دورے، سرکاری یونیورسٹیوں کے معاملات، میرٹ اور جن اداروں میں لوگ بڑی بڑی تنخواہیں لے رہے ہیں اور کام کچھ نہیں کرتے ان کی ایسی کلاس لی ہے کہ ان کی عقل ٹھکانے آگئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کام حکومتوں کا نہیں تھا؟ مجموعی طور پر 30برس تک پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت رہی۔ پانچ برس سے وفاق میں (ن) لیگ کی حکومت ہے، پھر مسائل حل کیوں نہیں ہوئے؟ اگلے روز بڑے میاں صاحب نے بڑا دلچسپ بیان دیا کہ اگر انہیں مزید 20 برس مل جائیں تو وہ ملک و قوم کی تقدیر بدل دیں گے۔ ارے بابا 30 برسوں میں پنجاب اور دس برس مجموعی طور پر وفاق میں رہنے کے بعد کس صوبے کے عوام کی تقدیر تبدیل ہوئی ہے؟ ہمیں بھی کچھ بتایا جائے۔ وفاق میں کبھی آپ آتے ہیں، کبھی جاتے ہیں اس طرح آپ کے وفاق میں دس سال سے زائد کا عرصہ بن جاتا ہے جن لوگوں نے ملک و قوم کی تقدیر بدلنی ہوتی ہے ان کے پاس ایک سال بھی ہو تو وہ انقلابی تبدیلیاں لے آتے ہیں یہاں تو ہر صوبہ دوسرے صوبے سے لڑ رہا ہے۔ سارے ہی لوٹ رہے ہیں، سارے ہی کھا رہے ہیں۔ اگلے دن ہمارے ایک دوست بیوروکریٹ نے کہا کہ مجھے سابق بیوروکریٹ مت لکھا کرو بلکہ فارمر بیوروکریٹ کہا اور لکھا کرو، سابق لفظ کچھ اچھا نہیں لگتا۔ (FORMER) فارمر بیوروکریٹ لکھنے سے بہت سارے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ وہ سمجھتے ہیں یہ بھی کوئی عہدہ ہے، جیسے بھٹو کے دور میں خورشید حسن میر وزیر بے محکمہ تھے، وزیر تو تھے۔ سو اب نواز شریف کو بھی چاہئے کہ وہ کہہ دیں کہ بھئی مجھے فارمر وزیراعظم لکھا اور بولا کرو، ان پڑھ لوگ یہی سمجھیں گے کہ شاید یہ بھی کوئی عہدہ ہوتا ہے۔بڑے میاں صاحب بیس سال تو آپ نے بہت بڑی مدت مانگ لی۔ یہاں پتہ نہیں کہ چند ماہ میں کیا ہو جائے۔ ویسے بھی ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ انسان کو پچاس سال کے بعد اپنے آپ کو ہر طرح کی ٹینشن سے بچانا چاہئے۔ اقتدار، زندگی سے پیارا نہیں ہوتا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں کہ اس اقتدار نے کتنے افراد کی زندگیوں کا چراغ گل کر دیا اور ایسے بھی جنہوں نے پیار کی خاطر اقتدار چھوڑ دیا۔ ویسے بھی آپ نے اپنے دور میں کوئی اتنے قابل فخر کام نہیں کئے۔کسب بنک کو صرف ایک ہزار روپے میں فروخت کر دیا اور آپ نے اپنے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے پوچھا تک نہیں کس بے دردی کے ساتھ آپ نے کسب بنک (KASB)کو کوڑیوں کے بھائو فروخت کر دیا اور جس بنک کے حوالے کیا اس کو چلانے کے لئے بیس ارب روپے دے ڈالے۔ حالانکہ کسب بنک منافع میں چل رہا تھا اور ابھی آپ قوم سے بیس سال مزید مانگ رہے ہیں۔ دوسری طرف پی پی والوں کی سنیں۔ وہ کہتے ہیں کراچی کا وارث صرف بلاول بھٹو ہے۔ کراچی کے وارث کو یہ کہو کہ بغیر پروٹوکول کے ذرا دو تلوار اور تین تلوار پر تو جائو، فقیروں کا میلہ نظر آئے گا جو وارث ہوتے ہیں وہ اپنے لوگوں کو بھوک اور ننگ میں نہیں دیکھتے۔ ان کے حقیقی وارث بن کر ان کی مشکلات دور کرتے ہیں مگر بلاول بھٹو تمہیں کیا پتہ کہ کراچی کے غریب لوگ پانی اور بجلی کے بغیر رات کیسے بسر کرتے ہیں یہ کہنا کہ کراچی کے حالات تم ٹھیک کر لو گے یہ تمہاری خام خیالی ہے، آبادی کا ایٹم بم اور کرپشن سب کچھ تباہ کر دے گا بلکہ تباہ کر دیا ہے، تم وزیراعلیٰ نہ ہوتے ہوئے بھی سندھ کے بادشاہ ہو کبھی تمہیں بھی ڈینگی ہو تو پتہ چلے کہ بیماری کیا ہوتی ہے۔ کراچی کا کوئی والی وارث نہیں جن جن پارٹیوں نے کراچی کے وارث ہونے کا دعویٰ کیا انہی پارٹیوں نے اسے تباہ کیا، کراچی کو اس حال تک صرف سیاستدانوں نے پہنچایا ہے۔ اگلے روز کراچی میں ایک ڈرائیور ہمیں ڈیفنس چھوڑنے جا رہا تھا اور اس نے کہا صاحب اگر کراچی میں کوئی سیاسی جماعت نہ ہوتی، کراچی کبھی تباہ نہ ہوتا اور نہ اس حال کو پہنچتا۔ ایک کم تعلیم یافتہ ایسی بات کہہ گیا اور ہم سوچوں میں گم ہوگئے ۔ پی پی کے لیڈروں نے سندھ کے نام پر پیسہ اور شہرت دونوں کمائی لیکن یہاں کے عوام کو کیا دیا؟ چھوٹے میاں صاحب ہم یہ بات دعوےسے کہتے ہیں کراچی کبھی نیویارک نہیں بن سکتا۔ ہاں اگر 1947ء میں کراچی جس طرح ترقی کر رہا تھا اگر نام نہاد سیاسی رہنما اور مخصوص مفادات والی جماعتیں پیدا نہ ہوتیں تو یقیناً کراچی امریکہ کے کسی شہر کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ اب بھول جائیں کہ کراچی دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک کے کسی گائوں کا بھی مقابلہ کر سکے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بالکل درست کہا کہ حکومت کے کام ہمیں کرنے پڑ رہے ہیں۔یہ بھی بالکل درست کہا کہ اب تک انہوں نے جتنے بھی سرکاری اسپتالوں کے دورے کئے ہیں ان میں سے سب سے خراب اور بری حالت مینٹل اسپتال کی ہے۔ انہوں نے مینٹل اسپتال کا دورہ کیا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک بھارتی خاتون اجمیرہ کئی برس سے مینٹل اسپتال میں موجود ہے اور اسپتال کی انتظامیہ کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بھارتی حکام سے رابطہ کرکے اسے بھارت بھجواتی۔
ہم تو اس سے قبل بھی لکھ چکے ہیں کہ مینٹل اسپتال کے حالات بہت خراب ہیں۔ وہاں مریضوں کو ادویات نہیں ملتیں خصوصاً خواتین ذہنی مریض بہت مشکلات اور تکلیف میںہیں۔ مینٹل اسپتال کی انتظامیہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے بالکل درست کہا کہ آئندہ مینٹل اسپتال کو کوئی پاگل خانہ نہیں کہے گا اور نہ لکھے گا۔ دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ کبھی چھوٹے میاں صاحب نے بھی اس ادارے کے حالات بہتر کرنے کی طرف توجہ نہیں دی۔ ظاہر ہے بھائی اگرپاگلوں نے کوئی الٹا سیدھا نعرہ لگا دیا تو سوشل میڈیا پر وائرل ہو جائے گا۔ پھر آپ ایک ذہنی مریض کو سزا دینے سے تو رہے۔
ہم یہاں معزز عدالت عظمیٰ سے درخواست کریں گے کہ ذہنی صحت کی علاج گاہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے ماہرین نفسیات اور سائیکاٹرسٹ پر مبنی ایک کونسل بنائی جائے جو تمام ملک کے مینٹل اسپتالوں کو جدید ترین بنائے۔ دوسرے میڈیکل کے جن اداروں میں تنخوائوں کے حوالے سے آپ نے نوٹس لیا۔ اس سلسلے میں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ تمام سرکاری اسپتالوں اور سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں اور عملے کی تنخواہیں حکومت کے مقرر کردہ اسکیل کے مطابق ایک جیسی ہونی چاہئیں۔
جناب چیف جسٹس دوہری شہریت رکھنے والے جو لوگ سرکاری اداروں میں کام کر رہے ہیں اس بارے میں کوئی فیصلہ کردیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)