• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تیموری بیگمات کا شعری ذوق

ایم جسیم الدین

امیر تیمور کو سلطنت مغلیہ کابانی کہا جاتا ہے۔شہنشاہ بابر، ہمایوں، اکبر، جہاں گیر، شاہ جہاں، اورنگ زیب، بلکہ سارے ہی مغل حکمراں اسی تیمور کی اولاد میں سے ہیں۔ مغل بادشاہوں، بیگمات، شہزادوں اور شہزادیوں کواسی لئے تیموری کہاجاتا ہے۔تیموری بادشاہ اور شہزادے فنی حرب و ضرب میں مہارت کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ خصوصاً رقص و موسیقی اور شعر و ادب کے دلدادہ ہوتے تھے۔ تیموری بیگمات اور شہزادیاں بھی فنونِ جنگ اور فنونِ لطیفہ سے کم دلچسپی نہ رکھتی تھیں۔ بعض بیگمات قلعہ میں ہر وقت ہتھیار بند رہتی تھیں،میدان جنگ میں داد شجاعت دیتیں ،رقص و موسیقی میں مہارت کے علاوہ شعر وشاعری میں وہ اپنے عہد کی خواتین میں ممتاز تھیں۔

امتہ الحبیب ترکی خلیفہ کی اسلامی فوج میں ’’لیفٹیننٹ‘‘ کے عہدہ پرفائز تھیں۔مردانہ لباس میں رہتیں۔تیمور نے جب خلافت اسلامیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی ، سترّ ہزار مسلمانوں کوملک گیری کی بھینٹ چڑھا دیا تو قیدی سپاہیوں کی جان بچانے کے لئے انھوں نے تیمور سے شادی کرلی۔ تیمور نے انہیں حمیدہ بانو بیگم کا نام دیا۔وہ ترکی عربی فارسی کے علاوہ چینی اور زرتشی زبانوں سے واقف تھیں’۔’ترکی خواتین‘‘ اور ’’امیر تیمور کی فتوحات ہندیہ‘‘ دوکتابیں ان کی یاد گار ہیں۔

’’آرام جاں بیگم‘‘ نور الدین جہاں گیر کی پانچویں بیگم ،حاضر جوابی، بے ساختگی اور فی البدیہہ شعر کہنے میں ملکہ حاصل تھا۔ عربی زبان میں بھی طبع آزمائی کرتی تھیں، مگر فارسی شاعری قابل داد تھی۔

جہاںآراء بیگم، یہ حسین و جمیل شہزادی، شاہجہاں بادشاہ کی چہیتی بیٹی تھیں جو ارجمند بانو بیگم کی اولاد تھیں۔ ہوشیار ، طباع، اور عربی و فارسی کی بہترین انشاء پرداز، اکثر اوقات فارسی میں اشعار موزوں کرتیں۔ ان کی آخری آرام گاہ مزارِ حضرت نظام الدینؒ اولیاء سے متصل ہے۔

جاناں بیگم کوقرآن کی تفسیر لکھنے کا شرف حاصل تھا ۔وزیر الملک مرزا عبدالرحیم خاں المخاطب بہ خان خاناں کی دختر تھیں۔ ان کی لکھی ہوئی تفسیر قرآن کی واحد کاپی شہنشاہ اکبر نے پچاس ہزار دینار میں خریدی تھی۔ان کی سخنوری اور طباعی کا کیا پوچھنا، استاد شعراء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ نازک خیالی اور مضمون آفرینی میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔ ان کے شوہر کانام شہزادہ دانیال تھا۔ شہزادےکے انتقال کے بعد شہنشاہ جہاں گیر ان کا خواستگار ہوا اپنی عصمت و عفت بچانے کے لئے، انھوں نے اپنے تمام دانت اکھڑوالئے۔ سر کے بال بے دردی سے کٹوادئیے۔بادشاہ جہانگیر ان کی پاکبازی اور شوہر سے وفاد اری دیکھ کر بہت متاثر ہو،ا اور کثیر انعام دے کر رخصت کیا ۔

حمیدہ بانو بیگم وہ خوش نصیب خاتون تھیں، جنھیں نصیرالدین محمد ہمایوں جیسا شوہرملا اور بیٹا مغل اعظم شہنشاہ جلال الدین اکبر جیسا۔ فارسی زبان میں بہت ہی برجستہ شعر کہتی تھیں۔


زیب النساء بیگم مخفی صاحبہ بادشا اورنگ زیب عالمگیر کی سب سے پہلی اولاد اور بدیع الزماں خاں عرف شاہ نواز خاں صفوی کی کی نواسی تھیں۔ عربی و فارسی کی تعلیم نہایت اعلیٰ درجہ کی حاصل کی، بڑے بڑے علماء فضلاء ان کی خدمت میں رہتے تھے۔ نظم و نثر میں ملا سعید اشرف ماژندانی سے اصلاح لیتی تھیں۔ علو م عربیہ وفارسیہ میں کمال رکھتی تھیں۔ خط نستعلیق ، نسخ اور شکستہ بہت عمدہ لکھتی تھیں۔ صاحب’’مخزن الغرائب ‘‘ احمد علی سندیلوی کے بقول، ان کا بھی کلام محفوظ نہیں۔ امام رازی ؒکی تفسیر کبیرکے ترجمے کے علاوہ بے شمار کتابیں علماء سے انھوں نے تصنیف کروائیں۔

اورنگزیب نے جب شاعری کودربار سے نکال دیاتھا تو وہ زیب النساء ہی تھیں، جنھوں نے قلعہ میں شاعری اور شعرا ء کو باریابی کا شرف دلایا۔ 65؍ سال کی عمر میں وفات پائی،ان کا مقبرہ لاہور میں ہے۔

زہدۃ النساء بیگم مذکورہ زیب النساء کی حقیقی بہن اور عالمگیر بادشاہ کی دختر تھیں۔ترکی اور عربی زبان میں بلا تکلف گفتگو کرتی تھیں، دیگر علوم و فنون سے واقف ، قادر الکلامی اور سخن سنجی میں مشہورتھیں۔ دادا شاہ جہاں نے دارا شکوہ کے چھوٹے فرزند سپہر شکوہ سے ان کا نکاح کرایا تھا۔

سلیمہ سلطان بیگم(مرز ا نور الدین کی بیٹی اور بادشاہ ہمایوںکی بھانجی) کی طبیعت نہایت موزوں واقع ہوئی تھی۔ شعر گوئی اور شیریں بیانی اور ر بے ساختگی جو سلیمہ سلطان بیگم کوحاصل تھی کم شعراء میں دیکھی جاتی تھی۔ ان کے اشعار نہایت مضمون خیز اور پرُ لطف ہوتے ۔ عالمہ فاضلہ اور شاعرہ تھیں۔ اکبر بادشاہ نے ان کی شادی بیرم خان عرف خان بابا سے کرائی تھی۔ بیرم خان کے قتل کے بعد خود اکبر بادشاہ نے ان سے نکاح کرلیا تھا۔

جمیلہ خاتون کے شوہر محمد مرزا تھے، ان کا پورانام رشید النساء عرف آرام جان تھا۔ یہ بھی استاد شاعرہ تھیں۔ فارسی شعر فی البدیہہ کہتی تھیں۔

اشرف زمانی بیگم، شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کی’’بہو‘‘ اور شہزادہ محمد معظم شاہ عالم بہادر شاہ اول کی ملکہ تھیں۔ قابلیت کامادہ بچپن ہی سے طبیعت میں تھا، باپ کے فیض صحبت اور تعلیم کے اثر نے سونے پر سہاگہ کاکام کیا، مشکل سے مشکل اشعار فوراً سمجھ لیتی تھیں۔ خود بھی فارسی اشعار کہتی تھیں۔

بادشا بیگم اورنگ زیب بادشاہ کی بیٹی تھیں۔ اپنی بہنوں (زیب النساء اور زہدۃ النساء ) کی طرح یہ بھی فارسی زبان کی شاعرہ تھیں۔ ذہن بہت تیز، نظر بہت وسیع سخت سے سخت زمین میں بر جستہ شعرکہتیں اور خوب کہتیں۔اپنے والدعالم گیر بادشاہ کی شان میں انھوں نے ایک قصیدہ لکھا بادشاہ نے اس قصیدے کو بہت پسند کیا اور ایک شعر کو کئی کئی مرتبہ پڑھ کر سنا ،لیکن بیٹی سے کہا کہ امراء اور خواص کاکام شاعری کرنانہیں،چنانچہ بادشاہ بیگم نے پھر بھول کر شعرو سخن کانام نہیں لیا۔

اب تک جن شاعرات کا تذکرہ کیا گیا وہ فارسی یا عربی یا ترکی کی شاعرات تھیں، اُس وقت ملک ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی تھی۔بادشاہ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد تیموری خاندان کازوال شروع ہو گیا، لیکن اردو زبان کے اقبال کا ستارہ نصف النہار پر ضو فشانی کرنے لگا۔روشن اخترمحمد شاہ (رنگیلا) پہلا تیموری بادشاہ تھا،جس نے اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے لئے اردو کا سہارا لیا ۔ فارسی اور ہندی کے ساتھ ساتھ اردوبھی قلعہ معلی میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جانے لگی۔ شاہ عالم ثانی آفتاب تیموری بادشاہوں میں اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر تھا۔

نواب اخترمحل اختر: خاندان تیموریہ کی شاہزادی ، ذی علم، طبیعت عالی، مضمون آفرینی میں یکتا اور بے انتہا نیک دل خاتون تھیں۔ان کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔

لکھ کرجو میرانام زمیں پر مٹا دیا

اُ ن کا تھا ،کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا

تیغِ نگاہِ یار کا دونوںپہ وار ہے

ٹکڑے اُدھر جگر ہے اِدھر دل فگار ہے

قدسی کی مشہور فارسی نعت پر ان کا خمسہ موجود ہے:

تجھ پہ قربان ہوں اے ہاشمی و مطلبی

کہ ہے مشہورِ دو عالم تری عالی نسبی

مرحبا سیدی مکی مدنی العربی

دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی

نواب قدسیہ بیگم ,ان کا نام ادھم بائی، بائی جیو صاحبہ اور صاحبتہ الزمانی تھا، تخلص رعنائی تھا ۔ یہ محمد شاہ (رنگیلا) کے حرم میں تھیں۔ رنگیلے شوہر نے انھیں بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا۔ بڑی بیدار مغز اور ہوشیار تھیں۔ اپنی عاقلانہ رائے سے اچھے اچھوں کو حیران کر دیا کرتی تھیں۔بیٹے احمد شاہ بادشاہ کے عہد میں سارا نظامِ مملکت ان ہی کے ہاتھ میں تھا۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے بے حد عقیدت تھی۔ دہلی کے مشہور کشمیری دروازے کے قریب ایک خوشنما باغ بنوایا اور اسی میں ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ اردو کے علاوہ فارسی اور ہندی میں بھی طبع آزمائی کرتی تھیں۔

گیتی آراء،دلی کی ایک غیر معروف خاتون کا نام اور تخلص تھا ،جو خود کو شہزادی کہتی تھیں۔ شعر گوئی سے ذوق تھا۔’’ تذکرۂ نسوان ھند‘‘ میں ان کا ایک شعر محفوظ ہے، ملاحظہ کریں۔

ہم نشیں وہ ہیں کہاں، کوئی ٹھکانہ نہ رہا

یا توہم ہی نہ رہے یا وہ زمانہ نہ رہا

نواب سلطان جہاں بیگم مخفی ’گلستان ِسخن‘‘مرزا قادر بخش گورگانی کی محل خاص اور با کمال شاعرہ تھیں۔ان کا ایک شعر ہے۔

خدا جانے کیا بات ہے اس میں مخفی

کہ اس ظلم پر جی کو بھاتا بہت ہے

نواب عالم آراء بیگم ناز،خاندان تیموری کی ایک با کمال شہزادی تھیں۔ انقلاب1957ء سے قبل قلعہ معلی کی شاعرات شہزادیوں میں انھیں بلند مقام حاصل تھا، لیکن حادثات زمانہ کی نیرنگیوں نے ترک شاعری پر مجبور کر دیا۔ذیل میں ان کی شاعری کی ایک جھلک ملاحظہ کریں۔

شور ہے اُس کی بے وفائی کا

بس نہیں چلتا واں رسائی کا

دامِ زلفِ سیاہ سے اُس کی

نہ بنا کوئی ڈھب رہائی کا

کر غلامی علیؓ کی تو اے ناز

ہے اگر شوق، بادشاہی کا

مجھ سے روٹھا وہ یار جانی ہے

جان ،جانے کی یہ نشانی ہے

تازہ ترین