• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ میں مغلوں کی آمد

باسط اللہ بیگ،میر پور خاص

برصغیر ،ہندوستان میں ظہیر الدین بابر کو پہلا مغل بادشاہ کہا جاتا ہے ۔ بابر اپنے وقت کے عقل مند، جنگجو، عظیم سپاہ سالار، مدبر، شاعر و ادیب اور ہندستان کے نام ور بادشاہ گزرے ہیں۔ ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھنے کے لیے انہیں مسلسل بڑی جدوجہد کرنی پڑی۔بابر نے کابل میں اپنی حکومت قائم کی۔ قندھار کو فتح کرنے کے لیے وہ مسلسل آگے بڑھ رہے تھے، قندھار میں اس وقت شاہ بیگ ارغون کی حکومت تھی۔ بابر نے شاہ بیگ ارغون کو سندھ بھیجا تاکہ وہ وہاں نئی حکومت قائم کرے۔ شاہ بیگ ارغون نے سندھ میں نئی حکومت قائم کی۔ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین شاہ حسن نےحکومت کی،اس عرصے میں ملتان بھی فتح کرلیا تھا۔ بابر کے انتقال کے بعد ہندوستان پر ان کے بیٹے نصیر الدین محمد ہمایوںنےحکمرانی کی، ہمایوں نہایت شریف اور نرم دل بادشاہ تھے۔ حکومت کی اندرونی ریشہ دوانیوں کو اچھی طرح سے سمجھ نہ سکے۔ کچھ عرصے بعد ہمایوں کو شیرشاہ سوری کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا، یوں انہوں نےسندھ کی جانب کوچ کیا۔ 

اُن دنوں سندھ کے حکمران اپنی بے چینی، بدامنی اور کمزور پالیسیوں کی وجہ سے بدحالی کا شکار تھے۔ سندھ میں مختصر قیام کے بعد ہمایوں کو ایران کا رخ کرنا پڑا۔ جانے سے قبل ہمایوں نے اپنے بیٹے اکبر کو بیروم خان کے سپرد کردیاتا کہ وہ اسے اچھی تربیت اور حربی امور سے واقف کرائےاور تمام امور کو صیغہ راز میں رکھے،جب اکبر بڑا ہوا تو اس نے شیرشاہ سوری سے اپنے والد ہمایوں کا بدلہ لیا ، اس طرح وہ ہندوستان کا تیسرا مغل بادشاہ بنا اور ’’مغل اعظم‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ اکبر کے دور حکومت میں ہندوستان نے بہت ترقی کی۔ اکبر کے دور حکومت سے پہلے، سندھ دو حصوں میں تقسیم ہوچکا تھا ،ٹھٹھہ اور بکھر میں الگ الگ حکومتیں قائم تھیں۔ 

سندھ میں مغلوں کی آمد

وہاں کے حکمران آپس میں لڑ رہے تھے، اس طرح سندھ کے سماجی، سیاسی اور معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ اکبر کے ہندوستان کا بادشاہ بننے کے بعد اس نے سندھ کی جانب توجہ دی۔ اس وقت سندھ میںجانی بیگ کی حکومت تھی اس کے بعد غازی بیگ تخت نشین ہوا۔ مغل دور حکومت میں سندھ کی سرکاری اور دفتری زبان فارسی تھی۔ سندھ کا انتظام چلانے کے لیے اسے چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ بھکر ملتان، سہون، نصرپور، چاچکان، ٹھٹھہ اور چاکر ہالا و جون پھر ان کےسپہ سالار، صوبے دار، فوجدار، جاگیردار اور ناظم مقرر کیےگئے۔ ناظم کا تقرر بادشاہ کی مرضی سے ہوتا تھا۔ صوبے دار کا تقرر صوبوں کی اہمیت کے پیش نظر کیا جاتاتھا۔ بڑے صوبے میں شہزادے اور اعلیٰ منصب داروں کا تقرر ہوتا تھا۔ ہر صوبہ سرکار میں تقسیم ہوتا،حالاں کہ سندھ زیادہ تر ارغون اور ترخان کی مورثی جاگیر میں رہا ، مگر صحیح معنوں میں کسی دور میں یہ مغل سلطنت کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ جہاں مغل صوبےدار تعینات تھے، چوں کہ سندھ مرکز ’’دہلی‘‘ سے دور تھا اس لیےصوبے داروں نے اپنے فرائض خوب نبھائے۔ انہوں نے محلات اور حویلیاں بنوائیں، یہاں کے ہنر مندوں نے سنگ تراشی مزارات کی آرائش کا کام کیا، جس سے ان ہنرمندوں اور کاریگروں کی جدت اور تخلیقی صلاحیتوں کا پتا چلتا ہے۔ 

مغلوں کے دور میں سندھ نے بہت ترقی کی، مغل دور میں یہاں عالیشان مینار، مقابر اور مساجد بنائی گئیں۔ ٹھٹھہ میں شاہ جہاںدور کی ’’شاہ جہانی مسجد‘‘ اور مکلی کا قبرستان مغل دور کی یاد دلاتاہے۔ ’’سرکار ٹھٹھہ‘‘ سمندر کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں تجارت خوب ہوا کرتی تھی۔ ٹھٹھہ علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ یہاں پر ہنرمند ، کاریگر، مصور، موسیقار، علما کافی تعداد میں موجود تھے۔ غیر ملکی سیاح کی گزرگاہ ٹھٹھہ ہی تھی۔ ٹھٹھہ اور اسی طرح سرکار سہون، سرکار بکھر ملتان بھی علم و ادب، ثقافت اور تہذیب و تمدن کے مرکز تھے۔ مغل دور کے آثار آج بھی وہاں موجود ہیں۔ سندھ میں جگہ جگہ ایسے آثار موجود ہیں، جو ہمیں مغل دور اور مغلوں کی سندھ میں آمد کی یاد دلاتی ہیں۔

تازہ ترین