صوبہ جنوبی پنجاب محاذ والوں نے بالآخر تحریک انصاف میں شامل ہونے کا اعلان کرہی دیا، البتہ اہتمام حجت کیلئے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ صوبہ محاذ کی اپنی علیحدہ شناخت برقرار رکھیں گے تاہم الیکشن میں تحریک انصاف کے انتخابی نشان پر حصہ لیں گے۔ صوبہ محاذ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ان کی تمام شرائط کو مان لیا ہے تاہم حقائق جو بھی ہوں اس انضمام سے پی ٹی آئی کی جنوبی پنجاب میں سیاسی گرفت مضبوط ہوتی نظر آ رہی ہے۔
ادھر جنوبی پنجاب میں جب سے صوبہ محاذ بنا ہے۔ سیاست ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ صوبہ بنتا ہے یا نہیں بنتا یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ فی الوقت صوبہ محاذ نے جنوبی پنجاب کی سیاست میں خاصی ہلچل مچا رکھی ہے۔ صوبہ محاذ جو 10 ارکان اسمبلی سے بنایا گیا تھا اب بڑی تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے اوراس میں شامل ہونے والوں کی تعداد ہر نئے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ لوگ مسلم لیگ ن سے صوبہ محاذ میں شامل ہو رہے ہیں اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو بعید نہیں کہ انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ن کو اس خطے سے امیدوار ڈھونڈنے میں بھی مشکلات پیش آئیں۔ اپنی عوامی سطح پر پذیرائی کو دیکھ کر صوبہ محاذ کے قائدین اب سیاسی سطح پر خود کو اس علاقے کے سب سے اہم محاذ کا حصہ سمجھ رہے ہیں۔ ان کے مطالبات میں تیزی آگئی ہے اور انہوں نے اپنے مطالبات کا زاویہ بھی تبدیل کرلیاہے۔ پہلے وہ ہر سیاسی جماعت سے یہ ضمانت طلب کرتے تھے کہ وہ ان کی غیرمشروط حمایت کا تحریری معاہدہ کریں تو وہ اس کے ساتھ اتحاد کو تیار ہوں گے مگر اب انہوں نے اپنے مطالبات کے زاویے کو اس طرح تبدیل کیا ہے کہ جو سیاسی جماعت بھی ان سے اتحاد کرنا چاہتی ہے وہ یہ طے کرے کہ انتخابات میں جہاں جہاں صوبہ محاذ کے امیدوار کھڑے ہوں گے وہاں وہ اپنا مضبوط امیدوار کھڑے نہیں کریں گی۔ کیونکہ صوبہ محاذ والے جنوبی پنجاب کے قریباً ہر قومی و صوبائی حلقے میں اپنا امیدوار کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور جس تیزی سے لوگ ان میں شامل ہو رہے ہیں ان کیلئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اپنے امیدوار انتخابی دنگل میں نہ اتاریں۔ بہرحال تحریک انصاف کے ساتھ ان کے معاملات طے ہونے کے بعد انہوں نے اپنی شرائط منواتے ہوئے پی ٹی آئی میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے آنے والے الیکشن میں ان کی شمولیت کا فیصلہ بتائے گا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکے ہیں یا نہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبہ محاذ کی طرف سے نئے صوبے کا جو حدود اربع بیان کیا گیا ہے وہ جنوبی پنجاب کے 3 ڈویژنوں ملتان ، بہاولپور اور ڈیرہ غازیخان پر مشتمل ہے جبکہ یہاں کی قوم پرست سرائیکی تنظیمیں جنوبی پنجاب کا جو نقشہ بنائے ہوئے ہیں وہ ایک طرف صادق آباد دوسری طرف میانوالی ، تیسری طرف جھنگ اور چوتھی طرف ساہیوال سے جاملتا ہے۔ گویا اس میں یہ 3 ڈویژن ہی نہیں رہ جاتے بلکہ ساہیوال ڈویژن اور سرگودھا ڈویژن کے بھی کئی علاقے شامل ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف ایک بار پھر بہاولپور کو صوبہ بنانے کی بھولی بسری تحریک میں بھی نئی جان ڈال دی گئی ہے اور بہاولپور صوبہ بحالی تحریک کے رہنمائوں نے باقاعدہ الٹی میٹم دے دیاہے کہ اگر 30 مئی تک بہاولپور کو صوبہ نہ بنایا گیا تو وہ سڑکوں پر نکلیں گے اور شدید احتجاج کریں گے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ پچھلے دور حکومت میں بھی جب جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی تحریک زور پکڑ گئی تھی اور اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا اعلان بھی کردیا تھا تو انہی دنوں بہاولپور صوبہ بحالی کی تحریک شروع کردی گئی تھی اور معاملہ اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ یہ کہا جانے لگا کہ جب جنوبی پنجاب کے لوگ علیحدہ صوبے کیلئے متحد ہی نہیں ہیں تو انہیں علیحدہ صوبہ کیسے دیا جاسکتا ہے۔ اس دن کے بعد سے چند ہفتے پہلے تک بہاولپور کو صوبہ بنانے کا مطالبہ کرنے والے منظر سے غائب رہے۔ نہ کوئی جلسہ ، نہ کوئی بیان مگر جونہی سب جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کرنا شروع کردیا کہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ صوبہ بنایا جانا چاہئے تو بہاولپور صوبہ بحالی والے بھی خواب غفلت سے جاگ کر میدان میں آگئے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر بہاولپور ڈویژن کو مجوزہ جنوبی پنجاب صوبہ سے نکال دیا جاتاہے تو پھر اس کی کیا نمائندہ حیثیت رہ جائے گی؟ آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ بہاولپور صوبہ تحریک والے بہاولپور کو علیحدہ صوبہ بنانا چاہتے ہیں یا ان کی خواہش یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ نہ بنایا جائے اور اس مطالبے کو بہاولپور صوبہ بنانے کا شوشہ چھوڑ کر سبوتاژ کیا جاسکے۔
ادھر رواں ہفتہ سے جنوبی پنجاب میں سیاسی میدان لگتے جا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری لیہ میں جلسہ کیلئے آ رہے ہیں تو 11 مئی کو ایک طویل مدت کے بعد نواز شریف ملتان کے ایک بڑے سٹیڈیم قلعہ کہنہ قاسم باغ میں مریم نواز کے ہمراہ جلسہ کرنے پہنچیں گے۔ بلاول بھٹو جنوبی پنجاب کے چھوٹے شہروں کا رخ کر رہے ہیں تو میاں نواز شریف نے ملتان کو اپنی بڑی سیاسی سرگرمی کا مرکز بنایا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ملتان کا جلسہ حاضری کے لحاظ سے کتنا کامیاب ثابت ہوسکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت جو اپنے سیاسی اختلافات کی وجہ سے گروپ بندی کا شکار ہے اعلیٰ قیادت کے کہنے پر اپنے تمام اختلافات بھلا کر اس جلسے کی کامیابی کیلئے متحرک ہوچکی ہے۔ کارنر میٹنگز کا سلسلہ بھی جاری ہے اور عوام کو اس جلسہ میں لانے کیلئے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اور نواز شریف زندہ باد ریلیاں بھی نکالی جا رہی ہیں۔ قلعہ کہنہ قاسم باغ سٹیڈیم وہ تاریخی مقام ہے کہ جہاں محترمہ فاطمہ جناح ، ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو ، اسلامی جمہوری اتحاد ، عمران خان اور کچھ ہی عرصہ پہلے بلاول بھٹو زرداری بھی بڑے جلسے کرچکے ہیں۔ اگر میاں نواز شریف کے جلسے میں لوگ بڑی تعداد میں نکل آتے ہیں اور یہ وسیع و عریض سٹیڈیم لوگوں سے بھر جاتا ہے تو اس کا اثر یقینا نہ صرف ملتان بلکہ جنوبی پنجاب کی سیاست پر بھی پڑے گا۔ اس میدان میں عوامی راج پارٹی کے سربراہ جمشید دستی بھی 13 مئی کو جلسہ کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ پہلے انہوں نے 11 مئی کا اعلان کیا تھا لیکن نواز شریف کا جلسہ ہونے کی وجہ سے انتظامیہ نے انہیں اجازت نہیں دی۔ گویا جنوبی پنجاب میں سیاست اور انتخابی سیاست کا ڈنکا بج چکا ہے اور سب لوگ اپنے اپنے انداز میں عوام کو متاثر کرنے یا عوامی لفظوں میں بے وقوف بنانے کیلئے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔