حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ عرب کے مشہور سخی و دریا دل حاتم طائی کے بیٹے تھے، وہ اپنے قبیلے کے سردار اورعہد جاہلیت میں اسلام اور نبی کریمﷺ کے سخت مخالف تھے، نوہجری میں رسول اکرمﷺ کی سیرت طیبہ اورحسن ِاخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔آپ شام کے اسلامی لشکروں میں شامل رہے اور عراق کی فتح میںبھی ساتھ تھے اور بعد میں جنگِ جمل اور جنگِ صفین میں حضرت علی ؓ کی جانب سے شرکت کی۔ جنگ یرموک میں ساٹھ ہزار رومی افواج کے مقابلے میں خالد بن ولیدؓ نے صرف ساٹھ مسلمانوں کو منتخب کر کے کھڑا کیا اور یہ جنگ جیتی، ان ساٹھ افراد میں حضرت عدی بن حاتم ؓبھی شامل تھے۔ آپ نے کوفہ میں جمادی الاولیٰ ۶۷ھ میں ایک سو بیس سال کی عمر میں وفات پائی اور وہیںآسودۂ خاک ہوئے۔
حضرت عدی بن حاتم ؓکے ایمان لانے کا واقعہ ابن ہشام نے تفصیل سے لکھا ہے ، ان کے بیان کے مطابق وہ اپنی قوم کے سردار تھے۔ قوم پیداوار اور مال غنیمت کا چوتھائی حصہ ان کی نذر کیا کرتی تھی۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے انہیں مسلمانوں سے سخت عداوت تھی، عیسائی تھے اور اسلام کو عیسائیت کا رقیب سمجھتے تھے ۔ سردار ہونے کی وجہ سے حضور نبی کریمﷺ کا اقتدار ان کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔ ان کی سازش سے یمن کے قبیلے ’’طے‘‘ نے بغاوت کی۔ حضرت علی ؓ ان دنوں یمن کے گورنر تھے۔ انہوں نے اس بغاوت کو ختم کیا اور بغاوت کرنے والوں کو گرفتار کرکے مدینے بھیج دیا۔
ان میں عدی کی بہن سفانہ بنت حاتم بھی تھیں، وہ بھی حضورنبی کریمﷺ کے سامنے پیش ہوئیں تو انہوں نے کہا کہ میں سخی حاتم طائی کی بیٹی ہوں، میرا باپ بھوکوں کا پیٹ بھرتا تھا اور غریبوں پر رحم کرتا تھا۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: تیرے باپ میں مسلمانوں کی سی خوبیاں تھیں۔ عدی کی بہن نے آپﷺ سے پھر عرض کیا کہ میری آپ سے ایک درخواست ہے۔ آپﷺ اسے قبول فرماکر مجھےشکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا، وہ کیا۔
عدی کی بہن نے کہا:یعنی میرا والد فوت ہوا ،میرا محافظ یعنی بھائی بھاگ گیا، آپ مجھ پر احسان فرمائیں (یعنی آزاد کردیں) اﷲ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا۔میر ابھائی آپ کی فوج سے خوفزدہ ہوکر شام کے علاقے میں بھاگ گیا ہے۔ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اسے لے آئوں اور آپﷺ اس کے لئے ایک اما ن نامہ لکھ دیجئے۔ یہ سن کر حضور نبی کریمﷺ چپکے سے چلے گئے اور کچھ جواب نہیں دیا۔ دوسرے روز پھر وہاں سے آپ کا گزر ہوا تو پھر اس نے وہی درخواست دہرائی۔ آپﷺ نے فرمایا: تم جلدی کیوں کرتی ہو، جب تمہارے علاقے سے کوئی آئے گا جس پر تمہیں اعتماد ہو، اس کے ساتھ چلی جانا۔ چناںچہ چند یوم بعد ان کے رشتے داروں میں سے چند افراد آئے۔
عدی کی بہن کہتی ہے کہ میں نے حضور نبی کریمﷺ سے عرض کیا کہ میرے رشتے داروں میں سے ایسے لوگ آگئے ہیں جن پر مجھے اعتماد ہے، یہ سن کر آپﷺ نے میرے لئے کپڑے کے جوڑے بھیج دیئے اور زادراہ اور سواری مہیا فرمائی۔ میں اپنے قرابت داروں کے ساتھ بھائی کے پاس پہنچ گئی۔ عدی فرماتے ہیں کہ میں اپنے بال بچوں میں بیٹھا ہوا تھا کہ دور سے مجھے چند سواریاں نظر آئیں، دیکھتا کیا ہوں کہ میری بہن آرہی ہے۔ وہ ابھی سواری سے اتری بھی نہ تھی کہ مجھے برا بھلا کہنا شروع کیا کہ تو بڑا ظالم ہے، قاطع رحم ہے۔ اپنے بال بچوں کو اٹھا کر لے گیا اور بہن کو یہاں چھوڑ گیا۔ چونکہ باتیں سچ تھیں اور میرے پاس کوئی عذر بھی نہ تھا، میں بہت شرمندہ ہوا، میں نے کہا۔
مجھے معاف کردے، پھر میں نے اپنی بہن سے رسول اﷲﷺ کے متعلق استفسار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا تو خیال ہے کہ تم جلدی ان کی خدمت میں حاضر ہوجائو۔ اگر وہ نبی ہیں تو تمہیں جلدی سبقت کرنی چاہئے اور اگر وہ بادشاہ ہیں تو تمہاری عزت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔عدی کہتے ہیں کہ میں نے کہا ٹھیک ہے اور میں ان کے ساتھ سوار ہوکر مدینے پہنچ کر مسجد نبوی میں داخل ہوا۔ آپﷺ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے، میں نے سلام کیا۔ آپﷺ نے فرمایا، عدی بن حاتم طائی ہو؟ آپ مجھے اپنے ساتھ گھر لے چلے، راہ میں ایک بڑھیا نے آپﷺ سے باتیں شروع کیں۔
آپﷺ وہیں کھڑے رہے۔ جب تک بڑھیا کی داستان ختم نہ ہوئی، میں نے سوچا کہ بادشاہ اس طرح ضعیف بڑھیا عورتوں کے روکنے سے نہیں رکا کرتے، محمد بادشاہ نہیں ہیں۔ گھر میں داخل ہوئے جس گدے پر آپﷺ بیٹھا کرتے تھے، اسے میری طرف سرکا دیا۔ گدّا ایک ہی تھا۔ میں نے عرض کیا، نہیں، آپﷺ اس پر بیٹھئے! فرمایا، نہیں آپ بیٹھیں، چناںچہ میں اس پر بیٹھ گیا اور رسول اﷲﷺ زمین پر بیٹھ گئے۔
اب مجھے یقین ہوگیا کہ آپ بادشاہ ہرگز نہیں ہیں۔ بیٹھتے ہی فرمایا کہ عدی ،تم اپنی قوم سے پیداوار اور مال غنیمت لیتے ہو، میں نے کہا ،جی ہاں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے دین کے تو خلاف ہے۔ عدی نے کہا ،بے شک۔ اب میں نے دل میں سوچا کہ ہو نہ ہو، یہ نبی ہیں ،پھر آپﷺ نے فرمایا: اے عدی تمہیں یہ امر مانع ہوا کہ مسلمان نہایت مفلس اور غریب ہیں، عدی وہ وقت آنے والا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اتنا مال آئے گا کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا۔ اے عدی، شاید تمہیں یہ چیز مانع ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں بڑی بڑی زبردست سلطنتیں ہیں۔
دشمنوں کے پاس بے شمار فوجیں اور وہ ہر طرح کے ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ عدی وہ وقت آنے والا ہے کہ مسلمانوں کی سلطنت اتنی وسیع ہوجائے گی اور ایسا زبردست انتظام ہوگا کہ ایک عورت تن تنہا قادسیہ (کوفہ سے کئی میل دور فاصلہ پر ہے) سے چلے گی اور خوفناک جنگلوں کو طے کرتی ہوئی مدینے میں داخل ہوجائے گی۔
عدی شاید تمہیں یہ مانع ہے کہ سردست مسلمانوں کی سلطنت بہت تھوڑی ہے۔ عدی ،خدا کی قسم ایک وقت آنے والا ہے کہ اسلامی فوجیں کسریٰ جیسی سلطنت کو پاش پاش کر ڈالیں گی۔ عدی! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم پڑھو (اﷲ اکبر) اﷲ بہت بڑا ہے۔ حضرت عدیؓ کہتے ہیں کہ یہ تقریر سن کر میں اسی وقت مسلمان ہوگیا اور حضورﷺ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔
یہی حضرت عدیؓ جو حاتم طائی مشہور سخی کے صاحبزادے ہیں، خود تصدیق فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے اس وقت جن تین امورکی پیش گوئی بیان فرمائی، وہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لی (تیسری بات بھی پوری ہوگی) 1۔ میرے سامنے کسریٰ کی زبردست سلطنت پاش پاش ہوگئی2۔ میری آنکھوں کے سامنے قادسیہ سے ایک عورت تن تنہا خطرناک جنگلوں کو طے کرتی ہوئی صحیح و سلامت مدینہ طیبہ پہنچ گئی۔
مجھے یقین ہے کہ تیسری بات بھی پوری ہوگی۔چناںچہ یہ تیسرا امر (غیبی) حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کے دور خلافت میں پوراہوا کہ لوگوں کو زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔حضرت عدیؓ بن حاتم کہتے ہیں کہ انہو ں نے حضور ﷺ کی دو پیش گوئیاں پوری ہوتی اپنے آنکھوں سے دیکھیں اور تیسری بھی پوری ہو گئی۔(عقائد صحابہ، ص37)
حضرت عدیؓ فتنۂ ارتداد کے زمانے میں ثابت قدم رہے اور اپنے قبیلے کو بھی اس فتنے سے روکے رکھا،حضرت عدی ؓ نے طویل عمر پائی آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دو نشانیاں تو پوری ہوچکی ہیں ،تیسری ابھی باقی ہے خدا کی قسم وہ بھی پوری ہو کر رہے گی ۔ میں نے بچشم خود دیکھا کہ ایک عورت تن تنہا اپنی سواری پر قادسیہ سے چلی اور بلاخوف و خطر سفر کرتی ہوئی مدینہ طیبہ تک پہنچ گئی اور میں اس لشکر میں بذات خود موجود تھا جس نے کسریٰ کے خزانوں کو اپنے قبضے میں لیا اور حلفیہ طور پر کہتا ہوں کہ تیسری نشانی بھی یقیناً پوری ہو کر رہے گی ۔
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺکی پیش گوئیوں کو سچا کر دکھایا اور تیسری نشانی حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور خلافت میں پوری ہوئی مسلمانوں کے پاس مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہوگئی تھی کہ زکوٰۃ لینے والا کوئی محتاج و مفلس نہیں ملتا تھا ۔