• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواتین کا کسی ایسے پیشے سے منسلک ہونا، جو میں مردوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتاہو، کوئی آسان بات نہیں۔ ہم نے یہاں کچھ ایسی پاکستانی خواتین کی زندگی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے جو ایسے ہی شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیںاور خود انحصاری کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی جستجو میں مصروف ہیں۔

تھر کی ڈمپر ٹرک ڈرائیورز

پاکستان کی غیر روایتی باہمت خواتین

بھارتی سرحد کے قریب واقع سندھ کے صحرائے تھرمیں ایک اندازے کے مطابق 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ جن علاقوں میں کوئلہ نکالا جا رہا ہے وہاں بڑی تعداد میں زرد رنگ کے ڈمپر ٹرک دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے 60 ٹن کے ایک ڈمپر ٹرک کی ڈرائیونگ کی سیٹ پر آپ کو گلابن بیٹھی نظر آئے گی۔ 25سالہ گلابن تین بچوں کی ماں ہے اور اس کا تعلق تھر کی ہندو کمیونٹی سے ہے۔ گلابن کا کہنا ہےکہ ابتدائی دنوں میں اسے ڈمپر چلاتے ہوئے بہت ڈر لگتا تھا، لیکن اب یہ اس کے لیے معمول کا کام بن گیا ہے۔ 

گلابن کا کہنا ہے کہ عورتیں ہر شعبے میں مردوں کی طرح کام کر سکتی ہیں۔گلابن ان 30 خواتین کے گروپ میں شامل تھیں، جنہیں سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی نے ڈمپر ٹرک چلانے کی تربیت دی تھی۔ گلابن کو دوسری زیر تربیت خواتین پر یہ سبقت حاصل ہے کہ وہ پہلے سے کار چلانا جانتی تھیں۔

یہاںڈمپر ٹرک چلانے والی ایک اور خاتون کا نام رامو ہے۔ رامو کا تعلق بھی اقلیتی برادری سے ہے اور اس نے گلابن سے متاثر ہوکر ڈمپر ٹرک چلانے کی تربیت حاصل کی ہے۔ 29سالہ رامو کا کہنا ہے کہ اگر گلابن ڈمپر چلا سکتی ہے تو وہ کیوں نہیں چلا سکتی۔ رامو 6 بچوں کی ماں ہے اور وہ 40 ٹن کا ڈمپر ٹرک چلاتی ہے۔

صرف تھر ہی نہیں، راولپنڈی میں بھی ایک ایسی ہی باہمت خاتون ہے، جس کے ہمت اور حوصلے نے پاکستان میں ٹرک ڈرائیونگ کے دروازے خواتین کے لیے کھول دیے ہیں۔ راولپنڈی کی اس خاتون ٹرک ڈرائیور کا نام شمیم اختر ہے۔ شمیم اختر کہتی ہیں، ’’اگر لگن سچی ہو تو کچھ مشکل نہیں، ہاں اگر خواتین یہ سوچتی رہیں کہ میں یہ نہیں کرسکتی، وہ کام ہمارے لیے مناسب نہیں تو پھر وہ واقعی کچھ نہیں کرسکتیں‘‘۔ 53 سال کی شمیم اختر اپنے گھر کی سربراہ اور واحد کفیل ہیں۔

ڈمپر ٹرک کے ڈرائیور کو 40 ہزار روپے ماہانہ کے لگ بھگ تنخواہ ملتی ہے۔اس شعبے میں آنے والی خواتین روایتی ثقافتی زنجیریں توڑ رہی ہیں اور مالی خودمختاری حاصل کر رہی ہیں۔ تھر کی زیادہ تر خواتین گھر داری کرنے کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں اپنے خاندان کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ گلابن کا کہنا ہے کہ جب وہ دوسری ڈرائیور عورتوں کو دیکھتی ہے تو اسےخوشی ہوتی ہے کہ عورتیں آگے بڑھ رہی ہیں اور اپنی زندگی بدل رہی ہیں۔

تھرکول منصوبے کی پہلی خاتون انجینئر

پاکستان کی غیر روایتی باہمت خواتین

ابھی تھر کول منصوبے میں تھر کے علاقے اسلام کوٹ میں خواتین نے ہیوی ڈمپرز چلا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہی تھا کہ تھر سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون انجینئر کرن سدھوانی بھی منظر عام پر آگئیں جو تھرکول منصوبے کی تعمیراتی ٹیم کا حصہ ہیں۔ کرن، تھر کی پہلی خاتون انجینئر ہیں، جنہوں نے مہران یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔ کرن کا کہنا ہےکہ جب انہوں نے تھر کول منصوبے میں ملازمت کے لیے درخواست دی تو وہ بہت زیادہ خوفزدہ تھیں کیونکہ اس کے لیے انہیں بے شمار ٹیسٹوں سے گزرنا تھا۔ تاہم ایک کے بعد ایک وہ مختلف مرحلوں میں کامیاب ہوتی گئیں اور تھر کول ٹیم کا حصہ بن گئیں۔کرن کہتی ہیں کہ،جب انہیں ملازمت مل گئی تو ان کے والد نے انہیں اس علاقے میں رہائش کی اجازت دینے کے لیے صاف انکار کردیا جو تھر کول کی ٹیم اور کارکنان کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ 

انہوں نے اسے کہا کہ اسے روز سفر کر کے ملازمت پر جانا اور شام میں واپس گھر آنا ہوگا۔ تاہم کرن وہاں رہ کر کان کنی اور دیگر تمام کاموں کو دیکھنا اور سیکھنا چاہتی تھی۔ بعد ازاں کرن کے والد نے اس جگہ کا دورہ کیا اور وہاں کا محفوظ ماحول دیکھ کر وہ کرن کو وہاں بھیجنے کے لیے رضا مند ہوگئے۔کرن کہتی ہیں،’ ’لڑکیاں صرف استاد نہیں بن سکتیں، وہ مشکل شعبوں میںجا سکتی ہیں اور وہاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں‘‘۔

جب تھر میں خواتین ٹرک ڈرائیورز کو منتخب کیا جارہا تھا تب کرن نے مختلف علاقوں میں جا کر کئی خواتین سے ملاقات کی تھی اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے گھر اور علاقے کی خوشحالی کے لیے اس معاشی عمل کا حصہ بنیں۔ انہوں نے بتایا،’ ’لیکن بہت سی خواتین پہلے ہی اس کے لیے پرجوش تھیں۔ ان میں سے کچھ ایسی تھیں جنہیں کوئی معاشی تنگی نہیں تھی، تاہم وہ باہر نکل کر کام کرنا چاہتی تھیں اور خود کو منوانا چاہتی تھیں‘‘۔

گلابی رکشہ

پاکستان کی غیر روایتی باہمت خواتین

پاکستان میں ایک غیر سرکاری تنظیم نے خواتین کو خود مختار کرنے کے ارادے سے ’پنک رکشہ‘ اسکیم کا آغاز 2015میں کیا تھا۔اس رکشہ کی خصوصیت یہ ہے اس کی ڈرائیور اور مسافر دونوں خواتین ہوتی ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی 43سال کی ثانیہ اسکول تو کبھی نہیں گئی تاہم معیار زندگی میں بہتری کے لیے انہوں نے یہ ضرور سیکھ لیا تھا کہ جب وہ 3,500کا موبائل خرید کر 5,000میں بیچے گی، تبھی جاکر وہ کچھ پیسے بنا پائے گی۔

ایسے ہی کاروباری مواقع کی تلاش میں وہ روزانہ گھر سے باہر نکلتی تھی۔ ’’ایک دن میں نے خواتین کے لیے پنک رکشہ کا سنا اور ان کے دفتر جاکر پہنچ گئی‘‘۔ثانیہ بتاتی ہے۔ ثانیہ دو بچوں کی ماں ہے اور پنک رکشہ چلاکر اس کا اچھا گزارا ہوجاتا ہے۔

تازہ ترین