اگر جیب اجازت دے اورسیکورٹی کلیئرنس کے بعد ویزا مل جائے تو امریکہ ضرور دیکھنا چاہیے ۔امریکہ کی ریاست مشی گن کے شمال میں واقع Traverse cityایسے ہی ہے جیسے یہ پریوں اور اپسرائوں کا دیس ہو۔ ڈی ٹرائٹ سے چار گھٹنے گاڑی ڈرائیو کرنے کے بعد یہاں پہنچے تو موسم یش چوپڑہ کی فلموں جیسا تھا۔ علاقے میں تاحدِنظر چیری اور انگور کی بیلیں دکھائی دیں تو انکشاف ہوا وائن اور بعض دیگر شرابیں یہاں تیار کرکے امریکہ سمیت دنیا میں فروخت کی جاتی ہیں ۔ بہت سی شرابوں کے متعلق فراز نے کہاتھاکہ ’’نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں‘‘ اس شہر میں مجھے میرے پسندیدہ شاعر خوب یاد آئے۔ میرتقی میر،غالب ، فیض ، ساغر صدیقی، جوش ملیح آبادی، منیر نیازی اور شیخ ظہور الدین حاتم سمیت ان سب کو یاد کیاجو اپنے زمانوں میں مے نوشی کی ’’برانڈ ایمبسیڈری ‘‘ کرتے رہے ۔ظہور الدین نے حاتم نے کہاتھاکہ
مدت سے آرزو ہے خدا وہ گھڑی کرے
ہم تم پئیں جو مل کے کہیں ایک جام شراب
مشی گن میں حسن نثار صاحب بھی یاد آئے جنہوں نے مجھے کہاتھاکہ اگر میں دوبارہ ڈی ٹرائٹ جائوں تو ہنری فورڈ کا میوزیم ضرور دیکھوں۔فورڈ وہ امریکی سائنسدان اور صنعت کار تھا جو اس دنیا کو متحرک اور تیزترین بنانے میں شامل تھا۔گاڑی یاکار ایجاد کرنے میں کئی ممالک کے سائنسدانوں نے اپنا کردار کیا۔سائیکل کی ایجاد کے بعد جرمنی ،فرانس امریکہ ،اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ کے سائنسدان اسے تیز دوڑانا چاہتے تھے یہی خیال کار کی ایجاد کی بنیاد بنا تھا ۔پندرہویں صدی میں Leonarda da vinci نے کار کی ایجاد میں ایک بنیادی ڈھانچہ متعارف کرادیا تھا اس ضمن میں سترہویںصدی میں بھی کام کیاگیا ۔ بہر حال یہ اتفاق رائے موجود ہے کہ 1885-86میں کارل بینز نے کار کا پہلا ماڈل ڈیزائن کیا ۔اُدھر جرمنی میں کارل بینز جدید اور متحرک دنیا کی بنیاد رکھ رہے تھے اِدھر مشی گن کے چھوٹے سے قصبے ڈی ٹرائٹ میں فورڈ کارسازی کی صنعت کی داغ بیل ڈال رہے تھے۔ یہ بات طے ہے کہ جب اہل ِ مغرب جہاز کے ذریعے فضائوں میں اڑان بھرنے اور کار سے فاصلے سمیٹنے کی جدوجہد میں مصروف تھے اس وقت کے بہت بعد تک برصغیر میں یہ گیت گائے جارہے تھے ۔۔گاڑی کو چلانا بابو ۔۔ذرا ہلکے ،ہلکے ،ہلکے کہیں دل کاجام نہ چھلکے۔جدید دنیا کی لگ بھگ تمام اہم ایجادات تو اہل مغرب نے کیں ہم اہلِ مشرق کا رویہ ان سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا شکریہ اداکرنے والوں سا رہا۔ پنجابی فلم کی ہیروئن رانی بیگم ٹیکسی ڈرائیور ہیرویوسف خان سے یوں ملتمس ہوتی ہے ۔۔ساہنوں وی نال لے چل وے بائو سوھنی گڈی والیا( ہمیں بھی ساتھ لے چلو بابو سوھنی گاڑی والے) ۔اپنا اور اہل مغرب کا رشتہ سمجھنے کیلئے اس پنجابی گیت کا مصرعہ ثانی بھی برمحل ہے ۔۔مار کے بہہ گئی چھال وے بائو سوھنی گڈی والیا(میں چھلانگ لگا کر اپنے سوہنے بابوکی گاڑی میں بیٹھ گئی)
اب تک نیویارک ،واشنگٹن،مشی گن (ڈی ٹرائٹ) اور ٹراورس سٹی گھومنے کے بعد دوبارہ نیویارک پہنچ چکا ہوں ۔پروگرام کے مطابق آج لاس اینجلس روانہ ہورہاہوںجہاں دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہالی وڈ ہے۔وہاں میرے میزبان سنیئر صحافی آصف راجہ ہیں ۔آصف کبھی لاہور کی صحافت کے راجہ ہوا کرتے تھے ۔اخبار کی دنیا میں اس قدر وجیہہ شخص کم ہی دیکھا ہے۔شلوار قمیص کے ساتھ تلے والا کھسہ پہنے راجہ صاحب صحافت کے مرزا جٹ دکھائی دیتے تھے ۔کئی ایک صاحبائیںان کا تعاقب کیاکرتی تھیں یہ جب لاہور میں تھے تو سہیل وڑائچ، جواد نظیر ،رئیس انصاری، خاور ملک اور بابا جمیل چشتی سمیت دیگر کے قریبی دوست تھے۔ اس سے قبل بھی یونیورسل اسٹوڈیو،ہالی وڈ واک آف فیم،سائن آف ہالی وڈاور ٹام کروز کا سائنٹالوجی چرچ دیکھ چکا ہوں۔کوشش کروں گاکہ اس بار لاس اینجلس میں وہ کچھ دیکھوں گا جو پہلے نہیں دیکھ سکا۔
امریکہ کے بہت سے نام ہیں جن میں یونائٹیڈ اسٹیٹس، یو ایس اے ، یو ایس ، یو ایس آف دی اسٹیٹس اور امریکہ شامل ہیں، بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ لفظ’’ امریکہ‘‘ سب سے پہلے1507 میں بولا گیا ، جب ایک جرمن نقشہ ساز نے گلوب بنا کر جنوبی اور شمالی امریکی براعظموں کو ظاہر کرنے کے لئے ایک لفظ’’ امریکہ ‘‘ کا انتخاب کیا۔ امریکہ کو کولمبس کے حوالے سے ’’ کولمبیا‘‘ بھی کہا جاتا رہا حتیٰ کہ بیسیویں صدی کے اوائل تک امریکہ کے دارالحکومت کا نام بھی ’’ کولمبیا‘‘ ہی رہا، بعد ازاں اس نام کا استعمال ختم کردیا گیا تاہم سیاسی طور پر ابھی بھی’’ کولمبیا‘‘ کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے امریکہ کو دنیا کو تیسرا بڑا ملک مانا جاتا ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ مشرق میں بحراوقیانوس سے جڑا ہے، مغرب میں شمالی بحرالکاہل ، جنوب میں میکسیکو اور خلیج میکسیکو اور شمالی میں کینیڈا واقع ہے۔ امریکہ کا آئین امریکی نظام میں سب سے اعلیٰ قانونی دستاویز ہے، اسے امریکی حکومت اور امریکی شہریوں کے درمیان ایک معاہدہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ امریکی آئین میں کئی طریقوں سے ترمیم کی جا سکتی ہے۔ تاہم حتمی ترمیم کی منظوری ریاستی اکثریت ہی دیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں جو عوام چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے اور لانگ مارچ سے پہلے ہو جاتا ہے۔ میں ابھی ابھی اولڈ نیویارک کا چکر لگا کر کمرے میں آیا ہوں، یہاں بنی ہوئی ڈیڑھ سو سال پرانی سڑکیں ابھی تک نئی کی نئی ہیں اور کشادہ اتنی ہیں کہ ان پر دھرنے دئیے جاسکتے ہیں اور لانگ مارچ کیلئے بھی موزوں ہیں ، یہاں کسی دور میں گھوڑا گاڑیاں چلا کرتی تھیں۔ امریکہ میں قدیم چیزیں بہت زیادہ ہیں، تاہم دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ قدیم چیزیں پوری طرح سے جدید چیزوں کے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں، یہ محض آثار قدیمہ بن کر نہیں رہ گئیں۔ مثلاً یہاں ڈیڑھ سو سال پہلے کے فلائی اوورز موجود ہیں جن پر آج بھی ٹریفک پورے اعتماد سے رواں دواں ہے ، ان فلائی اوورز میں لکڑی کے ساتھ ساتھ پرانے لوہے کی بھی مضبوطی نظر آتی ہے میں نے کافی کوشش کی لیکن مجھے کسی فلائی اوور پر اس دور کے خادم اعلیٰ یا وزیر اعظم کی تختی دکھائی نہیں دی۔
ڈائون ٹائون، بروک لین اور ٹائم اسکوائر میں آدھی رات کو بھی لاہور کی بسنت نائٹ جیسی لائٹنگ نظر آتی ہے تاہم لوڈشیڈنگ کا نام و نشان نہیں، اُدھر پاکستان میں گرمیوں کے آتے ہی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ سولہ گھنٹے تک پھیل گیاہے ۔نیویارک میں دنیا کے ہر ملک اور ہرعلاقے کے لوگ آباد ہیں ایک اندازے کے مطابق اس شہر میں800سے زائد زبانیں بولنے والے لوگ اکٹھے رہ رہے ہیں ۔ نیویارک پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کا بھی ذریعہ معاش ہے ۔مجھے امریکہ ہو بہو جیمز بانڈ کی فلموں والا امریکہ لگا، وہی فلک بوس عمارتیں، صاف ستھری سڑکیں، نیلگوں سمندر، پھرتیلی پولیس اور رنگ برنگے اپنی دھن میں مگن لوگ۔2016کی مردم شماری کے مطابق نیویارک کی آبادی 80لاکھ 53ہزار سے تجاوز کرچکی ہے لیکن بہرحال یہ لاہور سے بہت کم ہے ۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق پوری دنیا سے لوگ نیویارک میں آرہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ بھیڑ کی وجہ سے نیویارک میںصفائی ستھرائی کا معیار پہلے جیسا نہیں رہا۔ جگہ جگہ Liquors shops(مے کدے ) ہیں کالے جہاں سے بیئر پی کر فٹ پاتھوں کو ہی بیت الخلا سمجھ لیتے ہیں جس سے وہاں تعفن پیدا ہوجاتاہے جو سپر پاور کے امیج کو قدرے کم کردیتاہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)