• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں پاکستان سمیت پوری دنیا میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا گیا ہے فرد ہو یا کوئی سیاسی پارٹی ،تنظیم ہو یا کوئی قوم، آزادی بلاشبہ سب کے لیے بنیادی انسانی حق ، رحمتِ ایزدی اور نعمت غیر مترقبہ ہے ’’آزادی‘‘ بیسویں صدی میں بشمول پاکستان غلام اقوام کے لیے سب سے مقبول نعرہ رہی ہے آج بھی جو اقوام جبر کے استبداد میں دبی ہوئی ہیں وہ آزادی کے نعرے کا ورد کرتی رہتی ہیں۔۔مسلم اقوام نے بیسویں صدی کے نصف اول میں غیروں کی غلامی سے بڑی تعداد میں آزادیاں حاصل کر لیں لیکن افسوس اپنوں کی غلامی کا طوق مختلف ناموں سے ہنوز اُن کے گلے ہی نہیں پڑا ہے بلکہ گلے کی ہڈی بھی بنا ہوا ہے ۔ جس کی بدترین صورت حریت فکر پر قدغن اور آزادی اظہار پر مختلف حربوں سے لگائی گئی بندشیںہیں۔ یہ پابندیاں محض حکومتوں یا ریاستی اداروں کی طرف سے عائد کردہ نہیں ہیں بلکہ سوسائٹی کا کوئی بھی طاقتور گروہ نظریہ جبر کے تحت نہ صرف آزادی صحافت بلکہ تمام تر فکری آزادیوں پر تلوار لٹکائے کھڑا ہے۔ اسی نظریہ جبر سے نظریہ دہشت نے جنم لیا ہے ۔
الحمد للہ مسلم اقوام میں مختلف حوالوں سے اتنا پوٹینشل موجود ہے کہ وہ مہذب اقوامِ مغرب کے ہم پلہ ہو کر ان کے دوش بدوش چل سکتی ہیں لیکن انہیں ترقی سے روکنے اور فکری طور پر پسماندگی میں دھکیلنے کے لیے سب سے پہلا حملہ صحافتی و فکری آزادیوں پر کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی آقاؤں سے نجات یا آزادیاں حاصل کرنے کے باوجود مسلم اقوام اندرونِ خانہ اپنوں کی مسلط کردہ جبری بندشوں کی ’’برکت‘‘ سے نہ صرف بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں بلکہ جمہوری فیوض و ثمرات کے حصول سے بھی بڑی حد تک قاصر ہیں نتیجتاََ نہ صرف یہ کہ ان سوسائٹیوں میں نظریہ جبر و دہشت کے حاملین اٹھتے رہتے ہیں بلکہ بدترین نوعیت کی باہمی آویزش بھی جاری و ساری رہتی ہے ۔
ہمارے پیارے وطن پاکستان کی مثال قابلِ ملاحظہ ہے جس کی ستر سالہ تاریخ میں کبھی کوئی منتخب جمہوری حکمران اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا۔یہاں اسلامائزیشن اور کرپشن کے خلاف احتساب کے دو مثبت نعروں کا ہمیشہ منفی استعمال اتنی فراوانی سے کیا گیا کہ آج ہم بڑی حد تک ان کے عادی ہو چکے ہیں ۔ یہاں اول تو الیکشن ہی بر وقت نہیں ہوتے رہے لیکن جب ہوتے ہیں تو ان کے نتائج کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا جاتا رہا۔
ہمارے ایک سابق کھلاڑی ان دنوں لیلیٰ اقتدار سے ہم آغوش ہونے کے لیے اس قدر بے چین و بے قرار ہیں کہ ان کے لئے اقتدار بی بی کے عشق کی جنگ میں ہر چیز جائز ہے ۔ حال ہی میں موصوف نے اپنے سیاسی مخالف سیاستدان کا نام لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ انہوںنے 2013 کے الیکشن میں پاکستانی فوج کی مدد سے کامیابی حاصل کی۔ ہماری نظر میں یہ ایک سنگین الزام ہے جس کا کماحقہ محاسبہ و محاکمہ ہونا چاہیے۔ اپنی حالیہ سیاسی جد وجہد میں انہوں نے کبھی بھی منہ بھر کا اتنا بڑا بول نہیں بولا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ نادیدہ قوتوں یا خلائی و ماورائی مخلوق کہنے تک قانع رہے ہیں ۔و طنِ عزیز کا یہ المیہ ہے کہ یہاں انصاف کی طرح آزادی اظہار بھی سلیکٹڈ نوعیت کی ہے ایک طرف جھوٹی و ننگی الزام تراشیوں کی کھلی چھوٹ ہے تو دوسری طرف معمولی و غیر اہم باتوں پر تاحیات نااہلی کی سزائیں مل رہی ہیں ۔
حال ہی میں ایک میڈیا چینل کو جس طرح مختلف النوع بندشوں سے گزرنا پڑا وہ کتنا کربناک تھا سینکڑوں کا رکن جو اس ادارے سے وابستہ ہیں انہیں اپنے بچوں کے لیے روزی روٹی کا مسئلہ پیدا ہو گیا ۔ پھر اس اضطرار، لاچارگی اور حالتِ مجبوری میں اس ادارے کو جو کڑوے گھونٹ پینے پڑے انہیں آزادی اظہار یا آزادی صحافت کے لیے آخر کس طرح خوش آئند یا قابل فخرقرار دیا جا سکتا ہے؟۔ آج پوری قوم میں ایک نوع کی ہیجانی کیفیت ہے کچھ علم نہیں کہ اگلے لمحے کیا ہو گا؟ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا الیکشن بروقت ہو جائیں گے ؟ کیا بنے گا؟ کون جیتے گا؟ تو اس بے یقینی کی بنیادی وجہ آزادی اظہار پر عائد بندشیں ہیں ۔ بظاہر ہم سب آزاد ہیں قوم سلامتی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہر بات آزادی سے کہی جا سکتی ہے لیکن دوسری طرف اٹل حقیقت یہ ہے کہ خبردار کوئی ایسی بات سوچی بھی جو مزاجِ یار کے خلاف ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں تہذیب ، آئین اور انسانی حقوق کے دائرے میں رہتے ہوئے حقائق تک پہنچنے اور لاجک کے ساتھ انہیں بیان کرنے کی ہر شہری کو پورے اعتماد کے ساتھ آزادی ہو۔ اسی اسلوب کو اپنانے سے قوم نہ صرف سچائی کی شاہراہ مستقیم پر چڑھ سکتی ہے بلکہ کنفیوژن منافر ت اور دہشت و انتشار سے نکل کر سیدھے سبھاؤ تعمیر و ترقی کے سفر کا آغاز بھی کر سکتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین