جدید جمہوری سیاست کے تمام تر فلسفے میں سب سے بڑا خلل یہ ہے کہ اِس میں کسی فیصلے یا پالیسی کے صحیح ہونے سے زیادہ اِس کی ممکنہ مقبولیت کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ جنوبی ایشیا سے مغربی ممالک تک ایسی فیصلہ سازی کی اَن گنت مثالیں موجود ہیں جن میں مقبولیت کو قومی مفادات پر ترجیح دی گئی ۔ پاکستان میں فاٹا کا خیبر پختون خوامیں انضمام اور سرائیکی صوبے کی علیحدگی جیسے معاملات کا تمام حلقوں کی حمایت اور منتخب اِیوان کی منظوری کے باوجود کھٹائی میں پڑے رہنا جمہوری طرز سیاست کے تاریک روّیوں کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔
علیحدہ سرائیکی صوبے کے لئے جد وجہد اور تحریکوں کی تاریخ کافی طویل ہے۔ اِس جدوجہد میں علاقے کی تاریخ ، اس کے محل وقوع، ثقافت اور زبان کے مختلف ہونے پر کم و بیش ہر سطح پر مباحثے ہوتے رہے ہیں۔دور حاضر میں سرائیکی ثقافت کو خاص طور پر پنجاب سے مختلف قرار دینے پر بھی کافی زور رہتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر سرائیکی تاریخ ، زبان اور ثقافت بہت معمولی حد تک بھی پنجاب سے مختلف ہے تو بھی گزشتہ ایک صدی میں اِس خطے کے باسیوں کا مستقل معاشی و سیاسی استحصال اِس فرق کو زیادہ واضح کرتاآ رہا ہے ۔
سال 2018کے انتخابات قریب آتے آتے حسب روایت سیاسی وفاداری میں تبدیلیوں اور سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ تازہ پیش رفت یہ ہے کہ نون لیگ کی حکومت سے علیحدگی کے بعد جنوبی پنجاب صوبہ محاذ نے پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہونے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس پیش رفت کو سیاسی جوڑ توڑ قرار دینے سے پہلے تاریخی تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔
زبان اور ثقافتی حوالے سے سرائیکی علاقہ شمال مشرق میں ملتان، جنوب مشرق میں بہاولپور ، شمال مغرب میں ڈیرہ غازی خان ، سرگودھا اور ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک تک پھیلا ہوا ہے ۔ جھنگ اور میانوالی کو بھی کہیں کہیں سرائیکی ثقافت کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ مذکورہ شہروں میں ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک موجودہ صوبہ خیبر پختون خوا اوردیگرتمام شہر صوبہ پنجاب میں واقع ہیں۔
سرائیکی علاقوں کو ملک کے دیگر غیر ترقی یافتہ علاقوں کی طرح تمام سول اور ملٹری حکمرانوں کے ادوار میں عدم توجہی، اِنتظامی نا اہلی اور غلط ترجیحات کے سبب نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ حقائق اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی اہمیت سے پردہ پوشی اور مذہب و عقائد کی آڑ میں حکمرانوں اور ان کے وفادار عناصرکی جانب سے مفاد پرستی اور ہٹ دھرمی کا تسلسل یہاں کے عوام کے لئے قہر ثابت ہوتارہا ہے ۔ بیورو کریسی اور فوج میں پنجابیوں کی اکثریت بظاہر اِس علاقے کی پسماندگی کا براہ راست سبب نہیں اگرچہ چند حلقو ں کی جانب سے اِس معاملے کو بھی اچھالا جاتا رہا ہے۔
سچ یہ ہے کہ علاقے کی پسماندگی کے بہتیرے اسباب کا تانا بانا در اصل ملک میں اَن گنت ثقافتوں، زبانوں اور قومیتوں کی پیچیدہ گتھیوں سے ملتا ہے۔ اِس پیچیدہ معاملے کو سلجھانے کے لئے نہ صرف فکر اور سنجیدگی کی ضرورت ہے بلکہ اِس کے لئے باقاعدہ ایک مرحلہ وار سیاسی عمل در کار ہے اور بد قسمتی سے اِس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے ہمارے حکمرانوں کے پاس اہلیت ہے اور نہ ہی وقت۔ لہذااسٹیبلشمنٹ کے لئے اِن تمام پیچیدگیوں کوشارٹ کٹ کے ذریعے حل کرنے کا ایک ہی طریقہ دستیاب تھا کہ وفا ق کی طاقت کو بھرپور طریقے سے استعمال کرکے ملک میں بسنے والی مختلف قومیتوں کی بنیادی ضروریات کو ثانوی اور اجتماعی مفادات کے نعرے کو اولین ترجیح دی جائے ۔ اجتماعی مفادات کا نعرہ بھی ملک کی ترقی کے لئے سود مند ہو سکتا تھا، اگر سچائی پر مبنی ہوتا۔ لیکن افسوس کہ اِن تمام مہمات میں سنجیدگی ، ایمانداری اور خلوص کا فقدان جابجا دکھائی دیتارہا۔
افواج پاکستان اور اردوزبان کا ملک کی تمام قومیتوں کو یکجا رکھنے میں کردار بلا شبہ انتہائی فعال رہا ہے لیکن مذہب اور عقائدکو ایک اجتماعی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنے کی کوششیں خاطر خواہ کامیا ب نہ ہوسکیں ۔بلکہ یہ صورتحال وقت کے ساتھ ساتھ منافرت اور تقسیم کا سبب بنتی رہی ۔ سرائیکی عوام اِس صورتحال کا بدترین شکار ہونے والوں میں سر فہرست ہیں۔
جاگیردارانہ طرز معیشت و سماج بلا شبہ سرائیکی علاقوں کی معاشی اور سماجی بدحالی کا بنیادی سبب ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ رنجیت سنگھ کے طویل دور ِحکومت میں انگریزوں نے یہاں کے بااثر خاندانوں کو علاقے کی زیادہ تر زمینوں پر ملکیت کا اختیار دے دیا تھا ۔ اِن خاندانوں نے غیر یقینی سیاسی حالات کے پیش نظر جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں پر مشتمل ایک انتہائی طاقتور محاذ قائم کیا۔یہ محاذ اور اس کے باقیات عشروں تک علاقے میں پسماندگی کا سبب بنے رہے ۔
مغلوں ، سکھوں اور انگریزوں کے ادوار میں اس خطے کی جغرافیائی حدود میں ردو بدل بھی ہوتا رہا ۔ جنگ آزادی کے بعدانگریز راج ہندوستان پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے جگہ جگہ جغرافیائی حدود میں ردو بدل کرتا رہا ۔سرائیکی قوم کے ساتھ سب سے بڑا ظلم سال 1901میں ہواجب راج نے ڈیرہ اسماعیل خا ن اور ٹانک کو صوبہ سرحد یعنی موجودہ خیبر پختون خوا کا حصہ بناڈالا۔ اس پیش رفت پر مقامی آبادی نے مظاہروں اور ہڑتالوں کی صورت میں بھرپور احتجاج کیا ۔ لیکن فرنگیوں نے اس احتجاج کے خلاف کارروائی میں کم و بیش 25مقامی مظاہرین کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ستم یہ کہ سرائیکی عوام پر ریاستی جبر کا یہ تسلسل قیام پاکستان کے بعد بھی بند نہ ہوسکا۔ سال 1970میں ون یونٹ کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی ریاست بہاولپور کو صوبہ پنجاب میں شامل کرلیا گیا۔ لہذا تاریخ میں ایک بار پھر علاقے کی سیاسی و جغرافیائی حیثیت میں اس غیر منطقی تبدیلی کے خلاف مظاہرے ہوئے ۔ پولیس نے بے دریغ فائر کھول کر دوا فراد کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کردیا۔ اَن گنت مظاہرین گرفتار ہوئے اور آخر کار متاثرہ علاقوں میں فوج بلواکر کرفیو نافذ کردیا گیا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اب سرائیکی صوبے کے معاملے میں قوم، سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی شخصیات ایک صفحے پر ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں متعلقہ بل کی منظوری کے بعد اس پر عمل در آمدمیں مسلسل تاخیر سمجھ سے بالا تر ہے ۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا نون لیگ سے علیحدہ ہونا محض موقع پرستی کا شاخسانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ علاقے کے اِن منتخب نمائندوں نے پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی جانب سے اوپر تلے وعدہ خلافیوں کے بعد اب کہیں جاکر عمران خان سے توقعات وابستہ کی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے پاس بھی یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کی صورت میں بغیر کسی تردّد کے سرائیکی صوبے کے قیام کا اعلان کردے یا اپوزیشن میں رہنے کی صورت میں، حکمرانوں کے خلاف بدعنوانی کے معاملات کی طرح سرائیکی صوبے کے قیا م کے لئے بھی اپنی مہمات کی تیاری کرے۔ یہ سچ ہے کہ تاریخی و ثقافتی حوالوں سے سرائیکی عوام کا لاہور کے مقابلے میں میانوالی سے تعلق یقینی طور پر زیادہ گہرا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)