اسلام آباد (رپورٹ: احمد نورانی) انسانی حقوق کیس میں اپنے دیئے گئے نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قرار دیا کہ آئین کی دو بنیادی شرائط عوامی اہمیت اور بنیادی حقوق کے تحت نوٹس جاری کرنے سے قبل اسے مدنظر رکھنا چاہئے۔ نوٹس لینے کا فیصلہ سپریم کورٹ کا آئینی اختیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی جانب سےمنظوری بھی سپریم کورٹ کے حکم کا متبادل نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 17؍ ستمبر 2023ء کو پاکستان کے چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گے۔ رواں ہفتے پشاور میں انسانی حقوق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے، وہ تحلیل کردی گئی اور جسٹس فائز عیسیٰ کے بغیر دو رکنی بنچ بنائی گئی۔ انہوں نے عدالتی افسر کے اس اختیار پر سوال اٹھایا تھا کہ وہ حکومتی شخصیات کو کیسے نوٹس جاری کرسکتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جاری کردہ حکم کے مطابق کیس کی فائل دو صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلے صفحے میں لکھا کہ خیبرپختون خوا کے اسپتالوںمیں متعدی فضلے کو ٹھکانے لگانے سے متعلق رپورٹ طب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس صورت اگر منظوری دی گئی تو ایڈووکیٹ جنرل، چیف سیکریٹری، سیکریٹری صحت، سیکریٹری بلدیات اور سیکریٹری ماحولیات تحفظ ایجنسی (ای پی اے) کو ذاتی حیثیت میں عدالت حاضری کے نوٹس جاری کئے جاتے۔ اس پر ڈائریکٹر (ایچ آر سی) کے دستخط تھے۔ فائل میں دوسرا صفحہ جاری نوٹس کی نقل ہے۔ دوسرے فائل میں مواد کے فقدان کیو جہ سے اور کیس کی ابتدا کو سمجھنے کے لئے میں نے دریافت کیا آیا ڈائریکٹر عدالت میں موجود ہیں؟ تاکہ اگر کوئی فائل ہو تو اس کا جائزہ لیا جاسکے۔ آئین کا ٓرٹیکل 183(3) سپریم کورٹ کو آرٹیکل 199 میں مذکورہ نوعیت کا حکم جاری کرنے کا سپریم کورٹ کو اختیار دیتا ہے۔ 12؍ اپریل 2018ء ہی کو ڈائریکٹر نے کیسز میں اسی طرح کے نوٹس لکھے۔ فہرست کے ترتیب وار 6؍، 7؍ اور 8؍ میں ان مقدمات کی فائلوںمیں بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں تھا کہ سپریم کورٹ مذکورہ دو شرائط پوری کے حوالے سے مطمئن ہے۔ تاہم آرٹیکل 184(3) پڑھا جاسکتا۔ معزز چیف جسٹس نے مداخلت کی اور کہا کہ وہ بنچ ازسرنو تشکیل دے رہے ہیں اور یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ جج کے مطابق اپنے اصل دائرہ اختیار کو بروئے کار لانے سے قبل سپریم کورٹ کو پہلے آئین کے تحت اپنے حدود سے پہلے خود مطمئن ہونا چاہئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آخر میں کہا میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ ایسا نہ کرنے سےمیرا انحصار اپنے ضمیر پر زیادہ ہوگیا۔