پنجاب اور سندھ بالخصوص کراچی کے بہت سے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی خبریں گزشتہ چند ماہ سے گردش میں ہیں، اس پر قانونی کارروائی بھی ہوئی لیکن معاشرے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پیدا ہونے والا بگاڑ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ایک برائی پر ہاتھ ڈالا جائے تو کوئی دوسرا مسئلہ سر اٹھاتاہے گویا سماج دشمن عناصر نے قوم کی نئی نسل کو ہر صورت میں اپنی سرگرمیوں کا نشانہ بنانے کو مشن بنا رکھا ہے۔ اس برائی کے جڑ سے خاتمے تک حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنا چاہئے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے صوبہ بھر سے پکڑے گئے دوکروڑ روپے مالیت گٹکے کے سات لاکھ پیکٹ جلا کر تلف کردیے جو کہ مختلف شہروں سے برآمد کرکے لاہور لائے گئے تھے۔ اگر یہ سوچا جائے کہ یہ سات لاکھ پیکٹ سات لاکھ افراد کھا سکتے تھے اور ماہرین کے مطابق ایسے میں معدہ، منہ، خوراک کی نالی، جگر کا کسی بھی صورت میں متاثر ہو جانا خارج از امکان نہیں۔ پاکستان میں استعمال کیا جانے والا گٹکا مختلف اشیاء کا مرکب ہے جس میں تمباکو، چونا، کتھا، چھالیہ کے علاوہ متعدد انتہائی زہریلی اور مضر صحت اشیاء شامل کی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں ان کے عادی افراد مختلف مہلک بیماریوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جاپہنچتے ہیں۔ کئی مسلم ملکوں سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں اس قسم کی بازاری اور عوام کی صحت سے کھیلنے والی اشیاء بنانا، رکھنا یا بیچنا بڑا جرم سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں اس قسم کی اشیاء کا تصور بھی نہیں لیکن ہمارے ملک میں ابھی اس ضمن میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ا سکولوںکی کینٹینوں میں خوبصورت پیکٹوں میں بند طرح طرح کے ’’جنک فوڈز‘‘دستیاب ہیں یہی وجہ ہے کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد معدے اور جگر کے امراض میں مبتلا ہورہی ہے۔ یوں یہ مضر صحت غذائی اشیاء ملک کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے کا سبب بن رہی ہیں۔ اس صورت حال میں کچھ حصہ ان والدین کا بھی ہے جو محنت سے بچنے کے لئے خود بچوں کو بازاری اشیاء کھانے کی ترغیب دیتے ہیں لہٰذا حکومتی اور گھریلوہر سطح پر اس رجحان کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔