• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا ہم چور ، ڈاکو، رہزن ہیں یا ہماری شکلوں پر دہشت گرد لکھا ہے۔ یہ جو سلوک واشنگٹن میں ہمارے سفارتکاروں سے کیا جارہا ہے اور ان کی نقل و حرکت پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ یہ ہمارا اپنا ہی کیا دھرا ہے، ہم امریکہ کو پیر مان کر اپنے عوام کو ہر دور میں دھوکہ دیتے رہے۔ حقائق کے برعکس فیصلے کرتے رہے اور استعماری قوت کی جھولی میں بیٹھ کر نو مولود بچے کی طرح دودھ پیتے رہے۔ وہ کرائے کی ماں ہمیں پچکارتی رہی۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ( حوالہ توقیام پاکستان سے بنتا ہے مگر بار بار اپنے وجود کو کوسنا بھی اچھا نہیں، یہ اللہ کی رحمت ہے جتنا شکر ادا کریں کم ہے)۔ ہمارے حکمرانوں نے قومی مفادات کےبجائے اغیار کے مفادات کے سامنے گھٹنے ٹیکے، کیا کیا گھائو نہیں لگائے اس قوم کو، اس ملک کو، اس کی معیشت کو۔ یہ دفتری بابو بابے جن پر کروڑوں اربوں روپے کے اخراجات اس قوم کے سینے پر مونگ دل کر کئے جاتے ہیں، اسی دن کے لئے بٹھائے گئے تھے کہ آج دنیا ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھے۔ غیرت مند قومیں کبھی گھٹنے نہیں ٹیکتیں۔ ہماری خارجہ پالیسی چند کند ذہنوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے جو ایک دوسرے کو پاس دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور رہی سہی کسر ہمارے رہنمائوں نے نکال دی جوہر طرح سے نااہل ہی نہیں بلکہ بصیرت سے بھی عاری ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی نظریہ ہے۔ صرف اقتدار کی ہوس ہے ۔ آئے دن اس قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کے نظریات کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ایک اٹھتا ہے جنوبی پنجاب صوبے کا نعرہ لگاتا ہے۔ دوسرا سندھ کی تقسیم پر ڈٹ جاتا ہے۔ تیسرا بلوچستان کے حقوق کے نام پر دھوکہ دے رہا ہے۔ چوتھا فاٹا کوخیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی بات کرتا ہے تو کوئی اسے نیا صوبہ بنانے کی سوچ رکھتا ہے اور اسی دوران دشمن منظور پشتین جیسوں کوہماری سوچیں مزید تقسیم کرنے کے لئے میدان میں اتار دیتا ہے۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں آئے دن تقسیم کے فارمولوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ دشمن ہے کہ ہمیں ختم کرنے کے درپے ہے اور ہم ہیں کہ دشمن کو خودراستہ دے رہے ہیں۔ یہ میاں نواز شریف وہ عمران خان یہ مولانا فضل الرحمن وہ مولانا سراج الحق کیا صرف سیاسی دکانداری کی خاطر لڑنے مرنے کے لئے ہی ہم پر مسلط کئے گئے ہیں۔ کبھی مذہب کے نام پر کبھی حقوق کے نام پر ، کبھی پانی کی خاطر، کبھی صوبائی لسانیت کو بیچ کر اس قوم کو کیا دینا چاہتے ہیں۔ گلی محلے کے لڑکے بالوں کی طرح سیاست کرنے والوں کے پاس کوئی ویژن بھی ہے جو اس قوم کو سیدھی راہ دکھا سکے۔ دکھ تکلیف کا ایسا سمندر سامنے ہے جسے پار کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی نظر آتا ہے۔ اس جرم میں تو میں بھی شریک ہوں اور آپ بھی۔ یہ جو لوٹوں کی بہار ہم پر نازل کی جارہی ہے دراصل ہماری اقدار کی خزاں ہے، اِدھر اُدھر اُڑنے والے پرندے بے ضمیر ہو رہے ہیں ہمیں ان کا راستہ روکنا ہوگا۔ یہ چند خاندان اور ان کے پروردہ کبھی زرداری پھر نواز شریف اور اب عمران کے کندھوں پر سوار ہو کر ہم پر مسلط کئے جارہے ہیں،ایسے نمائندوں کی شکل میں قائم ہونے والی یہ جمہوریت نہیں جمہوریت کا جنازہ ہے جو بڑی دھوم سے نکالا جا رہا ہے۔ ہمیں ان بے ضمیروں کے خلاف متحد ہونا پڑے گا۔ انہیں ایسے سیاسی انجام سے دوچار کرنا پڑے گا کہ یہ بے پیندے کے لوٹے، چکنے گھڑے، کبھی دوبارہ مارکیٹ میں بکنے کے لئے نہ آسکیں۔ کوئی غریب، کوئی پڑھا لکھا، کوئی ہمارا ہمدرد،ہمارے دکھ درد کو سمجھنے والا، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا، خدارا اپنے درمیان سے ہی کسی کو تلاش کرکے منتخب کرلیجئے شاید ہماری تقدیر بدل جائے۔ غیرت مند قومیں کسی کے فیصلوں کی محتاج نہیں ہوتیں۔2018 ء کے عام انتخابات ان مفاد پرستوں سے نجات کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ یاد رکھئے۔آئندہ عام انتخابات ہمارے اچھے اور خدانخواستہ برے مستقبل کا فیصلہ کن مرحلہ ہیں۔ ڈر ہے کہ جس طرح ہم چاروں طرف سے جکڑے گئے ہیں کہیں اس گرداب میںنہ پھنس جائیں۔ نہایت مشکل وقت آنے والا ہے۔ عالمی دبائو بڑھتا جارہا ہے۔ منظر بڑا خوفناک ہے۔ شمالی و جنوبی کوریا کی دوستی یا شام و عراق کا انجام سامنے کھڑا ہے۔ افغانستان کے خیمے میں بھارتی اونٹ نے سر گھسا دیا ہے۔ ابھی بھی عقل کرلیجئے یہ وقت سیاسی دشمن داریاں نبٹانے اورانتشار پھیلانے کا نہیں یہ پاکستان کی بقاء و سلامتی کا مرحلہ ہے جسے قومی یکجہتی و اتحاد سے ہی طے کیا جاسکتا ہے ورنہ حالات ایسے بھی نہیں کہ ہم کسی خوش فہمی کا شکار ہوں۔ تاہم انتخابات سے قبل اپنی حفاظت کیجئے اپنے ملک پاکستان کی خاطر متحد ہو جایئے۔
امریکہ سے پاکستان کے تعلقات بتدریج کشیدہ ہوتے چلے جارہے ہیں، امریکہ کے جواب میں پاکستان نے بھی امریکی سفارتکاروں پر پابندیاںلگا دی ہیں۔ ماضی کے اتحادی دونوں ملکوں کے درمیان جو تنائو بڑھ رہا ہے بھارت اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے موڈ میں ہے۔ مستقبل قریب میں محاذ گرم کرنے کے لئے اس نے اپنی بساط بچھا دی ہے مگر ہم ہیں کہ ابھی تک یہ ہی طے نہیں کر پائے کہ حکمرانی کا اصل حق دار کون ہے، خلائی مخلوق یازمینی مخلوق۔ ہم سب فرض سے غافل اپنے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، حقوق کی یہ جنگ جب اقتدار کی جنگ بنتی ہے تو مفادات کا بہائو سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ ہمیں بیک وقت اندرونی و بیرونی مسائل کا سامنا ہے۔ اصل مسائل سے صرف نظر کرنا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا کی واحد سپر پاور ہمارے سامنے کھڑی ہو چکی ہے اس کی دھمکیاں اب باقاعدہ عملی للکار میں بدل چکی ہیں، ہم ہوش کے ناخن نہیں لے رہے۔ ایک طرف محرومی ہے تو دوسری طرف اقتدار کی دال جوتوں میں بٹ رہی ہے۔ ہم ماضی سے سبق سیکھنے کو تیار ہی نہیں اور ہوا کے دوش پر بے وزن ہو کر ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں، سمجھ نہیں آتی کہ ہم کس کو کوسیں، خود کو یا حکمرانوں کو۔ جیسے ہم ویسے ہمارے حکمران۔ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے، دغا باز نعرے بازوں سے جان چھڑانا وقت کی ضرورت ہے۔ آئندہ عام انتخابات کے لئے نئے نئے نعرے سامنے آرہے ہیں، پرانی بوتلوں پر نئے لیبل چسپاں کرکے انہیں سیاسی منڈی کی طشتریوں میں سجا دیا گیا ہے۔ اب یہ ہم پرمنحصر ہے کہ ہم اپنے مستقبل کا فیصلہ کیا کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی معیشت، دفاع، پارلیمنٹ اور داخلی و خارجی امور پر سخت دبائو ہے جسے کم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ قیادت اہل و قابل ہو اور درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی راہ نکال سکے۔عوام مہرے بننے کے بجائے خود اس کھیل کا حصہ بنیں اور حق حکمرانی حاصل کریں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین