یوں تو سال کے 365دِن ہی دُنیا بَھر کی مساجد اللہ تعالیٰ اور اُس کے محبوب پیغمبر، حضرت محمدﷺ کی حمد و ثنا کرنے والوں سے آباد رہتی ہیں، لیکن رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی پوری اسلامی دُنیا میں گویا رنگ و نُور کی ایک بہار سی آ جاتی ہے اور نہ صرف اسلامی ممالک بلکہ دُنیا کے ہر اُس خطّے میں، جہاں مسلمان آباد ہیں، رُوح پرور اجتماعات، تقریبات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ماہِ صیام کے دوران مساجد کی رونقیں دو بالا ہو جاتی ہیں۔ ان میں نمازیوں کا رش کئی گُنا بڑھ جاتا ہے۔ اس موقعے پر نمازِ تراویح کی ادائیگی کا منظر بھی دِیدنی ہوتا ہے۔ مساجد میں رات دیر تک بچّوں، جوانوں اور بزرگوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے اور پھر سحری وافطار کا سماں بھی قابلِ دید ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، دُنیا کی ایک چوتھائی آبادی رمضان المبارک کے فیوض و برکات سمیٹتی ہے۔ معروف جریدے، اکنامسٹ کے مطابق، دُنیا کے 50سے زاید ممالک میں رمضان المبارک کے دوران بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں جن خطّوں میں زیادہ جوش و خروش دیکھنے میں آتا ہے، ان میں مشرقِ وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیا اور بعض افریقی ممالک شامل ہیں۔ ذیل میں ماہِ صیام کے دوران خصوصی اہتمام کرنے والے بعض ممالک کا ذکر کیا جارہا ہے۔
مصر کے دارالحکومت، قاہرہ میں رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی مقامی باشندے گلی کُوچوں میں قندیلیں اور موم بتیاں روشن کرکے ماہِ صیام کا استقبال کرتے ہیں۔ اس قدیم شہر میں یہ روایت 696ء سے رائج ہے۔ اُس دَور میں خلیفہ معیز الدّین قریبی پہاڑی سے رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے بعد جب اپنی رہائش گاہ کی جانب لوٹتے، تو عوام اُن کی گزرگاہ کوقندیلوں سے روشن کرتے۔ اس موقعے پر قاہرہ میں ایک جَشن کی سی کیفیت ہوتی اور پورا شہر بقعۂ نور بن جاتا۔ یہ حسین روایت آج بھی برقرار ہے۔ عراق کے شہر، کرکوک میں بھی ماہِ صیام کا چاند نظر آنے کے بعد خوشی منائی جاتی ہے۔ افطار و سحر کے اوقات میں شہری، گھروں سے نکل آتے ہیں۔ نمازِ عشاء سے قبل ہر خاندان کے ارکان ایک مقام پر جمع ہو کر روایتی کھیل کھیلتے ہیں، جس میں چھپائی گئی شئے کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔ گرچہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کھیل کا آغاز کب اور کیسے ہوا، لیکن کرکوک میں اب یہ کھیل رمضان المبارک کی سرگرمیوں کا حصّہ بن چُکا ہے۔
خلیج کی تمام ریاستوں میں بھی رمضان المبارک کا جَشن بھرپور انداز سے منایا جاتا ہے۔ بعض خلیجی ریاستوں میں 14رمضان المبارک کی شب اہلِ محلّہ روزہ رکھنے والے بچّوں کے گھر جا کر مٹھائی تقسیم کرتے ہیں۔ اسی طرح اس جدید دَور میں بھی بعض عرب ممالک میں سحر و افطار کے وقت توپ کا گولہ داغنے کی روایت قائم ہے۔ ایک اور دِل چسپ روایت، سحری کے وقت ڈھول پِیٹ کر بیدار کرنے کی ہے۔ بعض خلیجی ریاستوں اور تُرکی میں اب بھی سحری کے وقت جگانے کے لیے ڈھول بجائے جاتے ہیں، لیکن یہ محض ایک خُوب صُورت روایت کا علامتی اظہار ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران اسلامی ممالک میں بالعموم اوقاتِ کار میں تخفیف کر دی جاتی ہے، تاکہ مسلمان آرام و سکون کے ساتھ روزے رکھ سکیں۔ مثلاً الجزائر یا الجیریا میں ماہِ صیام میں دفاتر 10بجے کُھلتے اور سہ پہر 3:30بجے بند ہو جاتے ہیں۔ افطار کے وقت بازاروں میں چہل پہل عام دِنوں کے مقابلے میں دُگنی ہو جاتی ہے اور عموماً جن چٹ پٹی اشیاء سے پرہیز کیا جاتا ہے، وہ اس ماہ مرغوب ہو جاتی ہیں۔
بنگلا دیش میں رمضان المبارک کی تیاریاں بابرکت مہینے کے آغاز سے کئی روز پہلے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ اس ماہ کے دوران ہر خاص و عام کا دستر خوان وسیع ہو جاتا ہے۔ بچّوں کی روزہ کُشائی کے موقعے پر خصوصی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔ مساجد میں رش بڑھ جاتا ہے، بالخصوص جمعۃ المبارک کی نماز میں تو مساجد میں گنجائش کم پڑ جاتی ہے۔آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے اسلامی مُلک، انڈونیشیا میں ماہِ رمضان کے دوران دفاتر میں اوقاتِ کار میں دو گھنٹے کی کمی کر دی جاتی ہے اور یہاں بھی افطار کے وقت دسترخوان پہلے سے زیادہ وسیع ہو جاتے ہیں۔ بیش تر روزے دار مسجد میں افطار کرتے ہیں، جہاں مخیّرافراد نے کھانے پینے کا پُر تکلّف انتظام کیا ہوتا ہے۔ نیز، افطار کے وقت لوگوں کی بڑی تعداد سڑک کنارے اشیائے خور و نوش لیےموجود ہوتی ہے۔
رمضان المبارک کے دوران انڈونیشیا میں جرائم کی شرح کافی حد تک کم ہو جاتی ہے ۔ شہری ایک دوسرے کی غلطیوں، کوتاہیوں کو درگزر کر دیتے ہیں اور جا بہ جا رواداری کے عملی نمونے نظر آتے ہیں۔ یوں تو انڈونیشیا کی مساجد اپنی خُوب صُورتی کے اعتبار سے دُنیا بَھر میں نمایاں حیثیت کی حامل ہیں، لیکن ماہِ صیام کی رونقیں ان کے حُسن کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ انڈونیشیا کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں واقع جزیرے، جاوا کے باشندے رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے بعد ایک مقدّس چشمے میں غسل کر کے ماہِ صیام کی تیاری کرتے ہیں۔کسی دَور میں انڈونیشیا کے دارالحکومت،جکارتہ میں سحری کے وقت جگانے کے لیے کریکرسے دھماکے کیے جاتے تھے، لیکن 19ویں صدی کے بعد اس پر پابندی عاید کردی گئی۔
یہاں عید سے قبل سرکاری ملازمین کوبونس کے طور پر ایک مہینے کی تن خواہ دی جاتی ہے، جسے ’’ہاری رایا‘‘ کہتے ہیں۔ ملائیشیامیں بھی ماہِ رمضان کے دوران اس سے ملتی جُلتی صورتِ حال دیکھنے میں آتی ہے۔ یہاں اس ماہ میں بھی سیّاحوں کی آمد و رفت میں کوئی زیادہ کمی دیکھنے میں نہیں آتی ۔انڈونیشیا کی طرح ملائیشیا میں بھی کئی عالی شان مساجد تعمیر کی گئی ہیں، جن کی دیکھ بھال پر حکومت خصوصی توجّہ دیتی ہے۔ افطار کے بعد مساجد کے باہر میلے کا سا سماں ہوتا ہے، جہاں سستے داموں اشیائے خور و نوش اور مناسب نرخ پر عطر اور پرفیومز دست یاب ہوتے ہیں۔
پاکستان میں بھی رمضان المبارک کا شان دار انداز سے استقبال کیا جاتا ہے۔ بالخصوص یکم رمضان کی رونق قابلِ دِید ہوتی ہے۔ رمضان کا چاند نظر آتے ہی مساجد نمازیوں سے بَھر جاتی ہیں اور جوانوں، بزرگوں کے ساتھ بچّوں کی کثیر تعداد بھی سَر بسجود ہوتی ہے۔ کراچی اور لاہور سمیت مُلک کے دوسرے بڑے شہروں کی عظیم الشّان مساجد میں رات گئے تک رونق رہتی ہے۔ گرچہ اکثر دفاتر میں افطار سے کئی گھنٹے قبل چھٹی ہو جاتی ہے، لیکن روزہ کُھلنے سے قبل سڑکوں پر انبوہِ کثیر اور شدید ٹریفک جام ماہِ صیام کا ایک مستقل جُزو بن گئے ہیں، جس کا آج تک کوئی حل نہیں نکالا جاسکا۔ ماہِ رمضان کے دوران زکوٰۃ، خیرات کی ادائیگی میں اہلِ پاکستان کو دُنیا میں ممتاز مقام حاصل ہے، جس کے سبب لاکھوں مستحق افراد کو با وقار انداز میں روزے رکھنے اور عید منانے کا موقع ملتا ہے۔
اس ماہِ مقدّس میں مُلک بَھر میں جا بہ جا مسافروں اور غریب و نادار افراد کو افطار کروانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ نیز، حکومت کی جانب سے قائم یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیائے خور و نوش رعایتی داموں پر دست یاب ہوتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، رمضان المبارک میں جرائم کی شرح عام دِنوں کے مقابلے میں خاصی کم ہو جاتی ہے۔ الغرض، یہ بابرکت مہینہ عبادات اور رُوح پرور اجتماعات کے باعث اہلِ پاکستان کی زندگی میں مثبت تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان کے پڑوس میں واقع، بھارت میں بھی، جہاں کم و بیش18کروڑ مسلمان بستے ہیں، ماہِ رمضان کے دوران بڑے جوش و خروش سے اہتمام کیا جاتا ہے۔اس ماہ میں یوں تو بھارت کی تمام ہی مساجد کی رونق قابلِ دید ہوتی ہے، لیکن نمازِ تراویح کا سب سے بڑا اجتماع جامع مسجد، دہلی میں ہوتا ہے۔ بھارتی مسلمان بعض پابندیوں کے باوجود نہایت خشوع و خضوع سے اس مہینے کے فیوض و برکات سمیٹتے ہیں۔
ایسے اسکینڈے نیوین ممالک میں، جہاں سورج 6ماہ غروب ہی نہیں ہوتا، مسلمانوں کے لیے رمضان المبارک کے دوران مسائل ضرور پیدا ہوتے ہیں، لیکن قُطبِ شمالی کی برفیلی آبادیوں میں رہنے والے کلمہ گو بڑے اہتمام کے ساتھ روزے رکھتے ہیں۔ قُطبِ شمالی کے قریب واقع ان ممالک میں دِن کو ’’پولر ڈے‘‘ کہا جاتا ہے۔ سویڈن کے دارالحکومت، اسٹاک ہوم سے 768میل کی دُوری پر شمال میں واقع، کیرونا بھی ایک ایسا ہی مقام ہے۔ اس بارے میں سویڈن کی اسلامک ایسوسی ایشن کے ترجمان، محمود خلفی کا کہنا ہے کہ ’’یہاں رمضان المبارک کے دوران اس قسم کے مسائل کا پیدا ہونا ایک فطری اَمر ہے، لیکن مقامی مسلمان جدید ٹیکنالوجی کی بہ دولت ان کا تسلّی بخش حل نکال لیتے ہیں۔
بعض افراد مکّۃ المکرّمہ کو مرکز بنا کر اپنا ٹائم زون نکال لیتے ہیں۔ بعض قریبی علاقے میں غروبِ آفتاب کا وقت نوٹ کر کے اس کے مطابق افطار کرتے ہیں۔ البتہ کیرونا میں مقیم مسلمانوں کا روزہ کھولنے کا وقت وہی ہوتا ہے، جو اسٹاک ہوم میں افطار کا ہوتا ہے۔ یہ 18گھنٹے طویل روزہ رکھتے ہیں۔ بعض افراد اپنے قریب ترین واقع مشرقِ وسطیٰ کے مُلک کے مطابق روزہ کھولتے ہیں۔‘‘ اس سلسلے میں یورپ کی اسلامک کائونسل روزے داروں کی خاصی رہنمائی کرتی ہے۔ اس بارے میں کائونسل کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ’’ 26سالہ فلسطینی خاتون، یاسمین جب غزہ میں رہتی تھیں، تو 11گھنٹے کا روزہ رکھتی تھیں، لیکن اب وہ اوسلو (ناروے) میں مقیم ہیں، تو ان کا روزہ 21گھنٹےکے دورانیے پر مشتمل ہوتا ہے۔ یاسمین خود کو اس اعتبار سے خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ وہ مزید شمال کی جانب نہیں رہتیں، جہاں سورج غروب ہی نہیں ہوتا۔‘‘ خیال رہے کہ سب سے مختصر دورانیے کا روزہ ارجنٹائن (11گھنٹے) اور نیوزی لینڈ( 11گھنٹے 21منٹ )میں ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، رمضان المبارک کی تاریخوں اور سحر وافطار کے اوقات میں ہر سال تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے اور اس سےدُنیابھر کے 22فی صد مسلمان متاثر ہوتے ہیں۔
ماہِ رمضان میں سعودی عرب شان دار تقریبات کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ مسجدِ نبوی ﷺ اور مسجد الحرام میں دِن، رات ایک رُوح پرور سماں ہوتا ہے اور ہمہ وقت طوافِ کعبہ جاری رہتا ہے۔ اس ماہ معتمرین کی تعداد میں کئی گُنا اضافہ ہو جاتا ہے اور رمضان المبارک کا آخری عشرہ تو مثالی ہوتا ہے۔ حرمین شریفین میں ہونے والے اجتماعات کو دُنیا بَھر میں براہِ راست نشر کیا جاتا ہے۔ ماہِ رمضان میں دن میں اوقاتِ کار کم کر دیے جاتے ہیں۔ یوں روزے دار گرمی کی شدّت سے محفوظ رہتے ہیں۔جس طرح حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب کو پوری دُنیا میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے، اسی طرح اس سرزمین میں رمضان المبارک بھی سب سے منفرد ہوتا ہے۔
بعض اسلامی ممالک میں رمضان المبارک میں روزہ نہ رکھنےاور کُھلے عام روزہ خوری پر سزائیں بھی مقرّر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل الجزائر میں روزہ نہ رکھنے کی پاداش میں 6افراد کو 4،4سال قید کی سزا سُنائی گئی تھی۔ کویت میں سرِ عام روزہ خوری کرنے والوں پر 100کویتی دینار جُرمانہ عاید کیا جاتا ہے۔ نیز، ایک ماہ کے لیے جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ بعض اسلامی ممالک میں سرِ عام روزہ خوری کی سزا 150گھنٹے تک کمیونٹی سروس کی صورت میں مقرّر ہے۔ دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں سعودی عرب میں زیادہ سخت سزائیں مقرّر ہیں۔ ملائیشیا میں روزہ خوری پر کسی قسم کی سزا نہیں دی جاتی۔ مصر میں رمضان المبارک کے دوران شراب کی فروخت پر مکمل پابندی عاید ہوتی ہے۔
امریکا میں افطار کادستر خوان
کہا جاتا ہے کہ امریکا میں سب سے پہلے غلام افریقی مسلمانوں نے روزہ رکھا، جنہیں سیّاح اور تاجر اسپین اور افریقا سے اپنے ساتھ بحری جہازوں میں یہاں لائے تھے۔ امریکا میں اس وقت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 80لاکھ مسلمان آباد ہیں اور 20امریکی ر یاستوں کا دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے۔ امریکا میں مقیم بیش تر مسلمانوں کا تعلق افریقا، ایشیا اور لاطینی امریکا سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں افطار کا دستر خوان انواع و اقسام کے کھانوں سے مزیّن ہوتا ہے اور افطار کسی کثیر النّسلی تقریب کا منظر پیش کرتا ہے۔
ماہرینِ سماجیات کے مطابق، جب افطار کے دستر خوان پر، چاہے وہ مسجد میں ہو، کمیونٹی سینٹر میں یا گھر میں، مختلف قومیّتوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے امریکی مسلمان تاریخ کے ایک گُم شدہ باب کو دوبارہ احاطۂ تحریر میں لا رہے ہیں۔ امریکا میں ماہِ رمضان کی تقریبات کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ نئی نسل ان میں خصوصی دِل چسپی لیتی ہے۔ رمضان المبارک میں قرآنِ پاک کی تفسیر بیان کرنے کے لیے خصوصی اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں خواتین خاص طور پر شریک ہوتی ہیں۔