قرآنِ کریم کا فرمان ہے ’’اور جب میں بیمار پڑجائوں، تو (اللہ) مجھے شفا عطا فرماتا ہے۔‘‘ (سورۃ الشعراء)۔ یعنی بیماری کو دور کر کے شفا عطا کرنے والا بھی اللہ ہی ہے اور ادویہ میں شفا کی تاثیر بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے، ورنہ اگر اس کا حکم نہ ہو، تو ادویہ بھی بے اثر ثابت ہوں۔ بیماری بھی اللہ ہی کے حکم اور مشیت سے آتی ہے۔ مشہور محاورہ ہے کہ ’’تَن درستی ہزار نعمت ہے‘‘ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں صحت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ ایک بیمار شخص ان لذّتوں سے مستفید نہیں ہو سکتا، جن سے ایک صحت مند شخص ہوتا ہے۔ دنیا کی لاکھوں حاصل شدہ نعمتوں کے باوجود بیمار شخص ان سے محروم رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صحت و تَن درستی کو دنیا کی سب سے بڑی دولت قرار دیا گیا۔اگرچہ کسی بھی بیماری سے ظاہری تکلیف ہوتی ہے، انسان کم زور و لاغر ہوجاتا ہے، قوتِ مدافعت کم ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات تکالیف کی شدت مایوسی کا سبب بنتی ہے اور مایوسی میں انسان کفریہ جملے تک کہہ جاتا ہے، لیکن درحقیقت بیماری بھی کسی نعمت سے کم نہیں، جس سے ایک طرف بیمار کو اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی کا موقع میسّر آتا ہے، تو دوسری طرف بسترِ علالت پر اللہ سے رجوع کرنے اور اپنے ماضی اور حال کے بارے میں غوروفکر کرنے کے لیے چند دن، چند لمحات، مل جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بیماری پر برا بھلا کہنے اور بعض اوقات کفریہ کلمات ادا کرنے سے سختی سے منع فرماتے ہوئے صبر و شکر کی تلقین کی گئی ہے۔ انبیائے کرام اور صحابہ اکرام اجمعینؓ کا یہی معمول تھا۔ حضور نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے ’’مسلمان کو کوئی رنج، دکھ، فکر، تکلیف، اذّیت، غم ،حتیٰ کہ اگر کانٹا بھی چبھتا ہے، تو اللہ اس کے سبب اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ (بخاری)۔
صبر و شکر کی اہمیت:صبر و شکر مومن کا ہتھیار ہے، جس سے وہ اپنی تکالیف، دکھ درد، غم، گلے شکوے، ناامیدی اور مایوسی کا خاتمہ کر کے راحت، سکون اور اطمینان حاصل کرتا ہے اور اللہ پر اس کا ایمان مزید پختہ ہو جاتا ہے، جو اللہ کی خوش نودی کا باعث بنتا ہے۔حضرت عطاء بن یسارؓ سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جب کوئی بندہ بیمار پڑتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دو فرشتے بھیجتا ہے اور ان سے فرماتا ہے کہ جائو اور دیکھو یہ اپنی عیادت کرنے والوں سے کیا کہتا ہے؟ پھر اگر وہ مریض اپنی عیادت کے لیے آنے والوں کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرے، تو وہ فرشتے اس کی یہ بات بارگاہِ الٰہی میں عرض کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’میرے بندے کا مجھ پر حق ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں اور اگر اسے شفا دوں، تو اس کے گوشت کو بہتر گوشت میں بدل دوں اور اس کے گناہوں کو مٹا دوں۔‘‘ (موطا، امام مالک)۔امام محمد بن محمد غزالیؒ فرماتے ہیں کہ مریض کو چاہیے کہ موت کو کثرت سے یاد کرے۔ توبہ کرتے ہوئے موت کی تیاری کرے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرے۔ خوب گڑگڑا کر دعائیں کرے۔ عاجزی کا اظہار کرے۔ خالق و مالک ِ کائنات سے مدد مانگنے کے ساتھ ساتھ علاج بھی کروائے۔ قوت و طاقت اور صحت یابی ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ بیماری کے دوران زبان پر شکوہ و شکایت نہ لائے۔ تیمارداری کرنے والوںسے عزت و احترام سے پیش آئے، مگر ان سے مصافحہ نہ کرے۔‘‘ (رسائل امام غزالی، الادب فی الدین)۔
بیماری کے بدلے میں فضیلتیں:رسول اللہﷺ نے ایک انصاری عورت کی عیادت فرمائی اور اس سے پوچھا ’’کیسا محسوس کر رہی ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا ’’بہتر، مگر اس بخار نے مجھے تھکا دیا۔‘‘ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’صبر کرو کیوں کہ بخار، آدمی کے گناہوں کو اس طرح دور کر دیتا ہے، جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو۔‘‘ (الترغیب و الترہیب)۔ایک روز بارگاہِ رسالتِ مآبﷺ میں بخار کا ذکر کیا گیا، تو مجلس میں موجود ایک شخص نے بخار کو برا کہا۔ حضورﷺ نے فرمایا ’’بخار کو برا نہ کہو، کیوں کہ وہ مومن کے گناہوں کوایسے پاک کر دیتا ہے، جیسے آگ لوہے کے میل کو صاف کر دیتی ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ)۔جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر میں ہوتا ہے، تو جو عمل وہ تَن درستی اور اقامت کی حالت میں کرتا ہے، وہ عمل بھی اس کے لیے لکھا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری)۔جب کوئی شخص تین دن بیمار ہوتا ہے، تو گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے، جیسے اس دن تھا، جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (مجمع الزوائد)۔حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا ’’جب مسلمان کسی جسمانی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے، تو فرشتے سے کہا جاتا ہے کہ اس کی وہ نیکیاں لکھ، جو پہلے کرتا تھا، پھر اگر اللہ اسے شفا دے دیتا ہے، تو اسے دھو دیتا ہے اور پاک کر دیتا ہے اور اگر وہ وفات پا جاتا ہے، تو اسے بخش دیتا ہے اور رحم کرتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)۔راہِ خدا میںجان دینے والے شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوتے ہیں، اس کے علاوہ طاعون سے مرنے والا، ڈوب کر مرنے والا، نمونیے سے مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، آگ سے جل کر مرنے والا، عمارت کے نیچے دب کر مرنے والا اورزچگی کے دوران مرنے والی عورت کا شمار بھی شہادت کے زمرے میں کیا جاتا ہے۔ (موطا امام مالک)۔مریض جب تک تَن درست نہ ہوجائے، اس کی دعا بارگاہِ الٰہی میں رَد نہیں ہوتی۔ (الترغیب و الترہیب)۔
علاج کا حق:بیمار کا پہلا حق تو یہ ہے کہ اسے علاج کی مناسب سہولت فراہم کی جائے اور ماہر ڈاکٹر کا انتخاب کیا جائے۔ ناتجربہ کار، غیر رجسٹرڈ، اتائی اور کمپائونڈرز ’’نیم حکیم خطرئہ جاں‘‘ ہوتے ہیں، جو نہ صرف مرض کو بڑھانے اور خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں، بلکہ بعض اوقات مریض کی جان تک لے لیتے ہیں۔ بیماری کا علاج کروانا سنّت ہے۔ بیماری خواہ معمولی ہی کیوں نہ ہو، اس کا علاج کروانا چاہیے۔ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری اتاری ہے، ساتھ ہی اس کے لیے شفا بھی نازل فرمائی۔‘‘ (صحیح بخاری) علاج کی دو صورتیں ہیں۔ ایک دوا اور دوسری دعا۔ مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کے ساتھ دوا اور دعا دونوں طریقہ علاج ایک ساتھ جاری رکھے جائیں، تو اللہ جلد شفا عطا فرماتا ہے۔ اِلاّ یہ کہ زندگی کے دن پورے ہو چکے ہوں۔ قرآنی آیات میں جسمانی اور روحانی دونوں طرح کے امراض کا علاج موجود ہے۔اس حوالے سےسورئہ یونس میں اللہ رب العزت فرماتا ہے۔’’اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے، جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو بیماریاں ہیں، ان کے لیے شفا ہے۔‘‘جب کہ تمام موذی امراض، مثلاً سرطان،، فالج، ہارٹ اٹیک، برین ہیمرج، شوگر، ہیپا ٹائٹس وغیرہ میں دوا کے ساتھ ساتھ سورہ رحمٰن کی تلاوت اور اسے پڑھ کر پانی میں دَم کرکے پینے سے شفا حاصل ہوتی ہے۔ اگر سورئہ رحمٰن یاد نہ ہو تو مریض کو اس کی تلاوت سنائی جائے اور علاج بھی جاری رکھا جائے۔ سورئہ رحمٰن قرآن پاک کی پچپن ویں سورہ ہے، جو ستائیسویں پارے میں موجود ہے۔
حسنِ سلوک کا حق: مریض کی بیماری جوں جوں طول پکڑتی ہے، اس کی جسمانی اور ذہنی کیفیت بھی متاثر ہوتی جاتی ہے۔ قوتِ مدافعت کم زور ہوجاتی ہے۔ مزاج میں بے زاری، تلخی اور چڑچڑاپن آجاتا ہے۔ ایسے میں اہلِ خانہ کی ذمّے داری ہے کہ وہ مریض کے ساتھ نرم روّیہ رکھیں۔ اس سے پیار و محبت کے ساتھ پیش آئیں۔ اسے تسلّی و حوصلہ دیں اور ہمّت بندھائیں تاکہ بیماری کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوسکے۔ بیماری، مریض کو حسّاس بنا دیتی ہے، اس کے سامنے اس کے مرض کی پیچیدگیوں کا تذکرہ نہ کریں۔ تیماردار کی ذرا سی عدم توجّہی اس کے مرض میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر بیمار شخص کوئی تلخ بات بھی کہہ دے، تو اسے نظرانداز کرتے ہوئے مسکرا کر برداشت کریں۔ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ بیمار کی دعا، فرشتوں کی دعا کی مانند ہوتی ہے۔ (ابنِ ماجہ) لہٰذا بیمارکی خدمت اور تیمارداری کر کے زیادہ سے زیادہ دعا لی جائے۔
عیادت کا حق اور اس کی اہمیت:مریض کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کی عیادت کی جائے۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ مریضوں کی عیادت کیا کرو اور جنازوں میں شرکت کیا کرو، یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتے رہیں گے۔ (مسندِ امام احمد)۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جب بیمار کے پاس عیادت کے لیے جائو، تو یہ دعا پڑھو۔ (ترجمہ) ’’اے اللہ! اپنے اس بندے کو شفا عطا فرما۔‘‘ (ابودائود)۔حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’مریض کی عیادت کرنے والا واپس آنے تک جنّت کے باغ میں رہتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) ’’جو مسلمان صبح کسی مسلمان کی عیادت کو نکلتا ہے، تو شام تک ستّر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں اور اس کے لیے جنّت میں ایک باغ لگا دیا جاتا ہے۔‘‘ (الترغیب و الترہیب)۔رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جس نے اچھے طریقے سے وضو کیا اور ثواب کی امید پر اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کی، اسے جہنّم سے ستّر سال کے فاصلے تک دور کردیا جائے گا۔‘‘ (ابو دائود)حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ’’ رسول اللہﷺ جب کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے یا کوئی مریض آپ کے پاس لایا جاتا، تو آپؐ یہ دعا پڑھتے۔ ’’اے پروردگار! بیماری دور کر دے، شفا عنایت فرما، تیرے علاوہ کوئی شفا دینے والا نہیں ہے، تو ہی شفا دینے والا ہے اور شفا درحقیقت تیری ہی شفا ہے، جو کسی بیماری کو نہیں رہنے دیتی۔‘‘ (بخاری)۔ حضورؐ نے فرمایا ’’مساجد کو آباد رکھنے والے نیک، بیمار ہوجائیں، تو ان کی عیادت کرنا فرشتوں کا طریقہ ہے۔‘‘ (مستدرک)بیمار کی عیادت ایک نفیس و صالح عمل، اعلیٰ درجے کی نیکی، فطری ضرورت اور عبادت ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کی زندگی خدمت ِ خلق کا بہترین نمونہ تھی۔ آپؐ دوسروں کی بیماری و تکلیف دیکھ کر بے چین ہو جاتے۔ بیماروں کی عیادت فرماتے، شفقت فرماتے، ان کی خبر گیری کرتے۔ آپؐ نے بیماروں کی عیادت کو اعلیٰ درجے کی نیکی قرار دے کر اللہ کی طرف سے بیش بہا انعام و اکرام کی نوید سنائی ہے۔
عیادت کے آداب:بیمار کی عیادت کے لیے آنے والوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
1۔ مریض اور اس کے لواحقین کے آرام کے وقت کا خیال رہے۔ وقت، بے وقت عیادت کے لیے چلے جانا احسن عمل نہیں۔
2۔مریض اگر اسپتال میں ہے، تو اسپتال میں ملاقات کے اوقات کے علاوہ مریض سے ملنے کی کوشش نہ کی جائے۔
3۔مریض کے پاس زیادہ دیر نہ ٹھہریں، سوائے اس شخص کے، جس کو زیادہ دیر ٹھہرنے سے مریض کو خوشی حاصل ہو، جب کہ کوئی شرعی رکاوٹ بھی نہ ہو۔ بیما ر پرسی کا افضل طریقہ یہی ہے کہ مریض کے پاس سے بہت جلد اٹھ جائیں۔ حضورﷺ نے فرمایا ’’مریض کی پوری عیادت یہ ہے کہ اس کی پیشانی یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پوچھے، مزاج کیسا ہے؟‘‘ (ترمذی) مریض کو تسلّی دینا، اس کی حوصلہ افزائی کرنا، جلد صحت یابی کی خوش خبری دینا، احسن عمل ہے۔
4۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’ مریض کے پاس عیادت کے لیے تھوڑی دیر بیٹھنا سنت ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)۔
5۔حضورﷺ کا فرمان ہے کہ’’ عیادت کرنے والا اگر مریض کو مرض کی سختی میں دیکھے، تو اس کو مریض کے سامنے ظاہر نہ کرے کہ تمہاری حالت خراب ہے، بلکہ اس کے سامنے ایسی باتیں کی جائیں، جو اس کے دل کو اچھی لگیں۔‘‘ (ترمذی)۔
6۔مریض کے سامنے دوسروں کی بیماریوں، تکالیف کا تذکرہ نہ کیا جائے۔-
7۔اپنے تجربات کی بناء پر مریض کو دوسری اور غیر ضروری ادویہ کھانے کا مشورہ نہ دیا جائے، اس کے لیے وہی دوا بہتر ہے، جو ڈاکٹر نے تجویز کی ہے۔
8۔اپنے ساتھ لائی ہوئی اشیاء مریض کو خود کھلانے پر اصرار نہ کریں بلکہ تیماردار کے حوالے کر دیں۔-9۔حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’جب تم بیمار کے پاس جائو، تو اس سے اپنے لیے دعا کی درخواست کرو، کیوں کہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی مانند ہوتی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)۔
بیمار اور پرہیز:بیمار کا ایک حق یہ بھی ہے کہ معالج کی ہدایت کے مطابق اسے پرہیزی کھانا فراہم کیا جائے اور وہ خود بھی پرہیز کرے۔ پرہیز جلد صحت یابی کا باعث بنتا ہے بلکہ بعض بیماریوں میں صرف پرہیز ہی سے افاقہ ہو جاتا ہے۔ حضرت ام منذر بنتِ قیسؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علیؓ کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے۔ حضرت علیؓ بیماری سے ابھی ابھی صحت یاب ہوئے تھے۔ گھرمیں کھجور کے خوشے لٹک رہے تھے۔ حضورؐ نے ان میں سے کچھ کھجوریں تناول فرمائیں۔
حضرت علیؓ نے کھانا چاہا، تو آپؐ نے انہیں منع فرمایا کہ’’تم ابھی کم زور ہو۔‘‘ حضرت امّ منذرؓ فرماتی ہیں کہ’’میں نے جَو اور چقندر پکا کر پیش کیا، تو آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا ’’اس میں سے کھالو، یہ تمہارے لیے نفع بخش ہے۔‘‘ (ابو دائود)۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ’’اگر رسول اللہؐ کے گھر والوں میں سے کسی کو بخار ہوجاتا، تو آپؐ ہریرہ تیار کرنے کا حکم دیا کرتے اور پھر اس میں سے گھونٹ گھونٹ پینے کا حکم دیتے اور فرماتے یہ غم گین دلوں کو تقویت پہنچاتا ہے اور بیمار کے دل سے تکلیف دور کرتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی عورت پانی کے ساتھ اپنے چہرے کا میل کچیل دور کرتی ہے۔‘‘ (ترمذی)۔