• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 پُراسرار قلعہ ’’رنی کوٹ‘‘

ممتاز اُسامہ

یوں تو کائنات کا ہر رنگ، ہر نعمت انمول او رقدرت کا بیش بہا خزانہ ہی نظر آتی ہے، لیکن قدرت نے سرزمین پاکستان کو جو حسن وجمال عطا کیا ہے و ہ شاید ہی کسی دوسرے ملک کے حصے میں آیا ہو،وطن عزیز پر قدرت کی بیش بہا مہربانیاں ہیں،یہاں بہتے قدرتی چشمے ہیں،دیوقامت پہاڑ ،ندی نالے،جھرنے،دریا، سمندر،صحرا ،ریگستان اور برف پوش چوٹیاں خوب صورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ سوات،کالام او رہنزہ جیسی پرکیف وادیاں ،سیف الملوک جیسی دل موہ لینے والی جھیلیں ، جہاں اس کے حسن کو چار چاند لگاتی ہیں، وہیں اس خطہ زمین کوتاریخی لحاظ سے بھی بیش قیمت نوادرات سے نوازا گیاہے۔ایسا ہی ایک تاریخی مقام سندھ میں کیرتھر پہاڑی سلسلوں پرواقع ’’قلعہ رنی‘‘ کوٹ ہے۔یہ حیدرآباد شہر سے اسّی کلومیٹر دور واقع ہے۔

ماہرین آثارقدیمہ کا کہنا ہے کہ رنی کوٹ چھبیس کلومیٹر (سولہ میل )رقبے پر مختلف پہاڑیوں کے مابین پھیلا ہوا ہے ۔قلعہ تک رسائی کے لیے قصبہ سن سے تیس کلومیٹرپختہ سڑک موجود ہے۔یہ حقیقت اب تک سامنے نہیں آسکی ہے کہ یہ کس نے تعمیر کروایا تھا،تاہم مورخین کا کہنا ہے کہ اسے ساسانی،سیتھین،یونانی یا پارتھیائی اقوام میں سے کسی ایک نے بنایا۔ یہ قلعہ فن تعمیر کا قدیم نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے کئی اہم ادوار اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہے۔ قبل مسیح کے دور کے بعد یہ عربوں کی فتوحات کے زمانے، مغل دور اور تالپور دور میں بھی وقت کے حکمرانوں کے زیر استعمال رہا۔رنی کوٹ قلعے کے اندر میری کوٹ اور شیر گڑھ کے نام سے دو اور قلعے واقع ہیں۔ 

ان دونوں چھوٹے قلعوں کے دروازے رنی کوٹ کے دروازوں جیسے ہیں۔ دفاعی نکتہ نگاہ سے میری کوٹ محفوظ پناہ گاہ تھا، جہاں رہائشی حصّہ اورزنان خانہ موجود تھا۔اس مقام سے کئی تاریخی واقعات منسوب ہیں، جن میں سے بیش تر پر ابھی مستند تحقیق ہونا باقی ہے۔ قلعے کے اندر مختلف مقامات سے بھی کئی دیومالائی کہانیاں منسوب ہیں۔مثال کے طور پر قلعے کے اندر مغربی حصے سے پھوٹنے والا چشمہ جس کو پریوں کا چشمہ کہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ چودھویں کی رات یہاں پریاںاترتی ہیں۔

قلعے کی مختلف دیواریں ،جو پہلے ہی خستہ اور زبوں حالت میں تھیں، انہیں بارشوں نے مزید تباہ حال کردیا ہے۔ میری کوٹ، شیر گڑھ اور خود اصل قلعے کی جنوبی دیوار بہت کمزور ہو چکی یہ تمام دیواریں پوری توجہ سے مرمت کی طلب گار ہیں، مگر قلعے میں سیاحوں کے لیے کوئی سہولت نہیں،کوئی شیڈ ہے ،نہ بیٹھنےیا بیت الخلاء کا مناسب انتظام ہے۔ 1980ء کے عشرے میں میری کوٹ میں ضلع کونسل نے ایک ریسٹ ہاؤس تعمیر کیا تھا، جو اب تباہ حال ہو چکا۔ یہاں تک کے چھت بھی گر چکی ہے، اس مقام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے، عدم سہولتوں کے باوجود قلعے کی سیر کرنے، روزانہ درجنوں سیاح آتے ہیں۔رنی کوٹ کے اندر حکومت نے میری کوٹ تک پختہ سڑک تعمیر کرائی تھی۔ یہ سڑک بھی ٹوٹ پھوٹ چکی ہے۔

پچھلے چند برس سے منتظمین کی بے رخی کے باعث قلعہ کے اندرناجائز تجاوزات وجود میں آنے لگی ہیں۔مقامی آبادی قلعے کے علاقوں میں ٹریکٹر گھما کر اس تاریخی مقام کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ میری کوٹ کے قریب زیر تعمیر پل کے پاس بدھ دور کی جگہ دو کمرے زیر تعمیر نظر آتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پر ایک مقامی بااثر شخص ہوٹل بنانا چاہتا ہے۔میری کوٹ سے مغرب میںگبول قبیلے کا ایک گاؤں قلعے کے اندر واقع ہے۔ یہ لوگ یہاں پر چھوٹی موٹی کاشت کاری بھی کرتے ہیں۔رنی کوٹ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ بتایا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود حکام یہاں سیاحت کو فروغ دینے میں ناکام رہے ہیں ۔کراچی سے قلعے تک رسائی آسان ہے اور قومی شاہراہ کے ذریعے یہاں پہنچا جا سکتا ہے۔ کراچی سے نکلنے کے بعد دادو کی جانب انڈس ہائی وے پر سفر کریں۔ اس سڑک کی حالت بہترین ہے،سندھی قوم پرست لیڈر،جی ایم سید کے آبائی قصبے سن تک ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ 

اس قصبے سے کچھ آگے ایک دوراہا آتا ہے۔ ایک زنگ آلود بورڈ پر اعلان کیا گیا ہے کہ رنی کوٹ یہاں سے لگ بھگ تیس کلو میٹر دور واقع ہے،گرچہ سڑک کافی خراب ہے پھر بھی یہ فاصلہ تیس سے چالیس منٹ میں طے ہوجاتا ہے۔یہاں روزانہ کئی سیاح آتے ہیں،یہاںایک دن کے اندر گھوم پھر کر واپس آسکتے ہیں۔یہ قلعہ سندھ کی شان دار اور بہت اہم آثار قدیمہ کی باقیات میں سے ہے،لیکن سیاحوں کی حفاظت اور قیام کے انتظامات ناقص ہیں۔ اگر حکومت یہ انتظامات بہم پہنچا دے، تونہ صرف دنیا بھر سے سیاح رنی کوٹ آئیں گے بلکہ لوگوں کی آمدورفت بڑھنے سے مقامی آبادی کو کاروبار کے بہترین مواقع میسر آ سکتے ہیں۔

تازہ ترین