• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنم دینے والی کی طرح شناخت دینے والی بھی ماں کہلاتی ہے۔ دونوں میں بہت سی خصوصیات ایک سی ہیں۔ اسی لئے دھرتی کو بھی ماں کی طرح معتبر سمجھا جاتا ہے۔ دونوں بھاگ بھری ہیں، دونوں کا رتبہ بلند ہے۔ کائنات میں ایک ہی رشتہ ہے جو سچا، خالص اور اٹوٹ ہے، جو سانس لینے سے قبل ہی استوار ہوجاتا ہے۔ وہ ہے ماں اور زمین کا رشتہ۔ ایک نام دیتی ہے تو دوسری پہچان۔ باقی تمام رشتے کسی نہ کسی سمجھوتے ،مفاد اور امید کے سہارے آگے بڑھتے ہیں جب کہ ان دو کی محبت بے لوث اور شفاف ہے، دونوں قربانی کا پیکر ہیں، دونوں بانٹنے پر مامور ہیں، دونوں اپنی فطرت میں صوفی ہیں، مہربان اور خیر کی پیکر۔ مامتا کا جذبہ ایک لازوال طاقت کا نام ہے۔ ایک چھوٹی سی مرغی اپنے بچوں پر حملہ آور ہونے والے طاقتور جانور کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔یہ طاقت اسے قدرت کی طرف سے عنایت کی جاتی ہے تاکہ نسل کا سلسلہ آگے بڑھتا رہے۔ عورت بنیادی طور پر صرف ماں ہے اسے کوئی بھی کردار نبھانا پڑے اُس میں ماں کے جذبات و احساسات ضرور شامل ہوتے ہیں۔ سب کی دیکھ بھال اور سلامتی اسکے منشور میں شامل ہے حتیٰ کہ خاوند کی طرف بھی اس کی محبت میں ہمدردانہ اور مشفقانہ رویہ غالب ہوتا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جس قدر ماں اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے اولاد ویسی محبت کر ہی نہیں سکتی۔ اسلئے کہ قدرت نے محبت کے جھکائو کا سلسلہ اگلی نسل کی طرف رکھا ہوا ہے۔اولاد کی محبت میں احترام اور دیکھ بھال ضرور شامل ہے مگر ویسی کمٹ منٹ، قربانی اور احساس نہیں جو ماں کی ذات میں ہے۔ یوں ماں کی محبت ، شفقت اور قربانی یک طرفہ ہے وہ غیر ارادی طور پر اپنی سرشت کے مطابق خوشی سے محبت کے وَن وے راستے پر گامزن رہتی ہے۔ ربِّ کائنات نے تکوین کائنات میں اسے شریک کار بناتے ہوئے اس کے وجود کو دکھ جذب کرنے کی صفت سے سرفراز کیا ہے۔ صبر اور شکر اس کا وظیفہ ہے اس لئے اس کے چہرے پر تقدس کے چراغ جلتے ہیں۔
ماں کی محبت کی مثال دینا انسان کے بس کی بات نہیں وہ جو کائنات کا خالق ہے اسکی محبت کو بھی ماں کی محبت سے تشبیہ دی جاتی ہے کہ وہ ستر مائوں سے زیادہ مہربان ہے۔ یوں تو جنت اسکے قدموں تلے بتائی جاتی ہے مگر اس کا اثر اسکی گود میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جہاں سر رکھ کر انسان دنیا جہان کے تمام بکھیڑے بھول جاتا ہے۔ اسکے بازوایسی پناہ گاہ ہیں جہاں دشمن کے کسی وار کی رسائی ممکن نہیں۔ اسکے مہربان ہاتھوں میں ایسی تاثیر ہے کہ اک لمس میں وجود کے ہر درد کو گہری نیند سُلا دے۔ دعائوں سے لبریز اسکی آواز ماحول میں خیر کے دیئے جلاتی محسوس ہوتی ہے۔ وہ ماتھے پر بوسہ دے کر اپنی خوشیاں منتقل کرتی اور اولاد کے دکھ جذب کر لیتی ہے۔ اسکی دعائیں ہر لمحہ بچوں کا حصار کئے رہتی ہیں۔ اس کا بس چلے تو گرم ہوا کا راستہ بدل دے مگر اولاد حصار توڑ کرآگے نکل جاتی ہے اور وہ رستہ دیکھتی دعائیں مانگتی اسی جگہ کھڑی رہ جاتی ہے۔ شکوہ و شکایت کئے بغیر کہ یہ اس کا منصب ہی نہیں۔ اس کا وجود تو محبت کی تجسیم ہے۔ بالکل یہی حال دھرتی کا ہے۔ اس کا دامن ماں کی گود کی طرح ہر وقت میسّر ہے۔ خدمت اور محبت اس کے فرائض منصبی ہیں مگر وہ صلے کی طالب ہے۔ اس کی تمنا وقار کی چادر اور اس کے صحن میں کھڑے پرچم کی آبرو سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ چاہتی ہے جنہیں اُس نے پہچان دی، اپنی نعمتوں سے مالا مال کیا وہ بھی اس کی نیک نامی کا باعث بنیں۔ دنیا میں اس کا چرچا اچھے لفظوں میں ہو۔ دھرتی زندگی کا نام ہے۔ ہر لمحہ دھڑکنے والی کیفیت اس پر طاری رہتی ہے۔ ٹھہرے ہوئے اجزا کے اندر بننے سنورنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ وہ انسان کی خوراک بننے والے درختوں، پودوں، فصلوں اور جانداروں کو سینچنے کے لئے اپنی پوری قوت صرف کرتی ہے۔ گھنے اور لمبے درختوں کو مضبوطی سے تھامے رہتی ہے تا کہ زندگی آسان اور توازن قائم رہے۔ وہ گفتگو کرتی ہے۔ اس کی سوندھی خوشبو محبت کا پیغام لے کر در در پر جاتی ہے، بند دروازوں پر دستک دیتی ہے مگر مصنوعی خوشبوئوں کے حصار میں پھنسے لوگ اس طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ کان لگا کر اس کی سرگوشی سنتے ہیں نہ ننگے پیروں سے اس کا لمس محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس سب کے باوجود وہ محبت ترک نہیں کرتی۔
دھرتی اور انسان کا بندھن اٹوٹ ہے۔ اس کی مٹی سے وجود کا خاکی پیرہن بُنا جاتا ہے۔ ماں کی گود سے اتر کر بچہ سیدھا اس کے وسیع آنگن میں آتا ہے۔ یہ اپنے دامن میں بیش بہا خزانے سموئے ہوئے ہے۔ اس کے صحن میں انواع و اقسام کی فصلیں، پھل اور میوے پھلتے پھولتے ہیں۔ یہ ماں کی طرح جانداروں کو پالتی ہے۔ انسان کی زندگی کا دورانیہ ختم ہو جائے تو وہ اسے اپنی گود میں ابدی نیند سلا لیتی ہے۔ اگر یہ قبول کرنا ترک کر دے تو انسان کا وقار مجروح ہو جائے۔ بڑی جدوجہد اور لمبے سفر کے بعد حاصل ہونے والی وسائل سے مالا مال، مہربان اور سرسبز دھرتی کی قدر سے آشنا ہونے کے لئے ان لوگوں کو خیال میں لائیں جن سے ان کی زمین چھین کر انہیں غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا گیا، ان کی بے چینی اور اذیت ملاحظہ کریں جو ایک قوم کا تشخص رکھنے کے باوجود اپنی زمین سے جدا ہیں۔ ہم بھی زبانی کلامی بڑی چاہت کا اظہار کرتے ہیں مگر اس جیسی محبت کر ہی نہیں سکے۔ محبت کا قرض بڑھتا جا رہا ہے۔ اتنی مہربانیوں کے باوجود آج پھر ہر طرف سے اس پر سنگ باری جاری ہے۔ اس کے وقار پر حملے کرنے والے شرمندہ ہونے کی بجائے دوسروں کی اچھالی گئی گالیوں کو جواز بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ گویا سب برابر ہیں ناقدرے اور نامہربان، پوری دنیا کے سامنے اپنا تماشا بنا کر دوسروں کو طعنہ زن ہونے کا موقع دینے والے۔ گھر کی لڑائی گھر سے باہر نکل گئی ہے۔ نہ افراد سرخرو نہ ادارے۔ دنیا ہمارے گرد گھیرا تنگ کئے جا رہی ہے اور ہم آپس میں دست و گریباں ہیں۔ ذاتی ہار اور جیت میں ملک کی تقدیر دائو پر لگی ہوئی ہے اور کوئی بھی ایک پل رُک کر ماں کی آنکھوں اور دھرتی کے دِل کی پکار نہیں سن رہا۔ کیا ہی اچھا ہو ہم دھرتی کے احترام اور آزادی کے تحفظ میں جان سے گزرنے کے عزم کے ساتھ ساتھ اس کی توقیر کو اپنا شعار بنائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین