بقول معروف مفکر ابن خلدون ’’کسی قوم کے عروج و زوال اور ثقافت کو سمجھنا ہو تو اس کے تعلیمی نظام کو سمجھ لو‘‘ یقیناً ابن خلدون کی معروف کتاب ’’کتاب العبرفی دیوان المبتدا والخبر فی ایام احوال البربر‘‘ قوموں اور ثقافتوں کے عروج و زوال کی صرف داستان ہی نہیں بلکہ ایک سبق آموز دستاویز بھی ہے۔ ہم ماضی کے رہنے والے ایسے لوگ ہیں کہ جو ایک ایسے نواب کی طرح لوگوں کو جمع کرکے اپنی حکایتیں باربار سناتا ہے کہ ہم ماضی میں 100ہاتھیوں کی بارات کے ساتھ اپنے علاقے میں گھومنے کے لئے جایا کرتے تھے یا کہیں یہ آواز بھی سنائی دیتی ہے کہ ہم ان ان خصوصیات کے حامل رہے ہیں کہ ہمارا ہم پلہ کوئی بھی نہیں تھا وغیرہ وغیرہ ۔ درحقیقت حال بھی یقیناً ماضی میں ہمارے تاریخی شواہد کے ساتھ ایسا ہی تھا۔ لیکن بقول حضرت علامہ اقبالؒ ’’تھے تو وہ آباء تمہارے مگر تم کیا ہو۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو۔‘‘ ہمارے اسلاف کے لگائے ہوئے باغات کے ہم خوشاں چیں ہیں لیکن شاید ہم نے کبھی اس جانب توجہ ہی نہیں دی کہ محض ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں کے نعرے سے زندگی لوٹ نہیں آتی بلکہ اس زندگی کے لئے اجتماعی طور پر پوری قوم کو اور خصوصی طور پر تعلیمی اداروں کو علمی زیور سے آراستہ اور کردار کی پختگی سے پیراستہ کیا جاتا ہے۔ ماضی کے جو بڑے نام ہمیں نظر آتے ہیں آج اس طرح کے نام مفقود ہیں ماضی قریب اور مستقبل قریب دونوں پر نظر ڈالیں تو یہ بات آسانی کے ساتھ محسوس کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی حرماں نصیبی یہ تھی اور ہے کہ اس میں پاکستان کا ہراول دستہ یعنی نوجوان اور پاکستان کی اصل پناہ گاہ یعنی تعلیمی اداروں کو محض کاغذ تک رینکنگ کے نام پر یا تو محدود کردیا گیا ہے یا پھر صرف ذرائع ابلاغ کے ذریعے کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ زیر نظر مضمون کا مقصد کسی فرد ،افراد یا ادارے کی خوشنودی یا ناراضگی نہیں بلکہ ایک غیرجانبدارانہ تبصرہ ہے جو کسی بھی معاشرے کی فکری اساس ہے۔
بقول سینٹ تھامس ایکوناس ’’اگر معاشرے سے تنقید اور جوابدہی ختم ہوجائے تو مذہبی اخلاقیات کا کوئی جواز نہیں رہتا۔‘‘ بلاسبب تنقید اور تضحیک ایسے عوامل ہیں جو قوموں میں ذہنی بیماری پیدا کرکے آنے والی نسلوں کو مایوس کردیتے ہیں لیکن یہ کیا کہ ہم خود اب تک یہ طے نہیں کر پارہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا یا سیکولر ازم کے لئے۔ ہمارے سیاسی نظام مملکت میں جمہوریت بہترین طرز عمل ہے یا چندسری حکومت (Oligarch Govt) یہاں تک کے بعض لوگ مارشل لاء کے جواز میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ چلئے چھوڑتے ہیں اب اس بحث کو لیکن ایک حقیقت کو ہم سب نے تسلیم کیا کہ علم ہی اصل طاقت اور ترقی ہے۔ جب ہم نے اس اصول پر اجماع کرلیا تو اب اس بات کے مکلف بھی ٹھہرے کے علم کو ہم عام کریں گے اور اس کے لئے ہم علمی ماحول ، سیاسی استحکام ،سیاسی رواداری اور سب سے بڑھ کر جیو اور جینے دو کے اصول کے تحت ہر زبان کے بولنے والے اور ہر ثقافت پر عمل کرنے والے ،ہر مسلک و عقیدے پر گامزن رہنے والے فرد کو اسلام ،دستور پاکستان اور بین الاقوامی قانون کے تحت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں گے لیکن حقیقت احوال کچھ اس کے خلاف ہے۔
ہم شب و روز ، ریڈیو ٹی وی، اخبارات، کانفرنسز، سیمینارز ، ورکشاپس ،کارنر میٹنگز ،جمعے کے خطبات، سیاسی اجتماعات اور ایسے ہی دیگر ذرائع سے بارہا ان باتوں کا اعادہ کرتے ہیں اور نہ جانے کب تک کرتے رہیں گے لیکن بقول علامہ اقبال ؒ ’’مسجد تو بنالی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے۔‘‘ پاکستان ہمارا وہ گھر ہے کہ جس نے ہمیشہ ہمیں سب کچھ دیا لیکن کاش کہ اس گھر اور خاندان کے بانی قائداعظم محمدعلی جناح کی رحلت اتنی جلدی نہ ہوتی (یہ بھی ایک بحث طلب نکتہ ہے کہ قائداعظم کی طبعی موت واقع ہوئی یا ان کی موت کے پس منظر میں کوئی سازش تھی) لیکن جو رب کو منظور اس میں ہمیں کیا دخل۔
آج پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ جس میں ایک ہی سوال باربار ابھرتا ہے کہ کیا واقعی ہم نے پاکستان کی سیاسی سماجیات ، تعلیمی استحکام اور مذہبی رواداری کے ساتھ ساتھ اس کی آزاد خارجہ پالیسی کے ساتھ انصاف کیا؟ اس کا جواب صرف موجودہ حکومت یا ماضی کی حکومتوں سے طلب نہ کریں بیشک ان میں بعض ہماری اپنی منتخب حکومتیں تھی اور ہوں گی لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنی آگہی کی بنیاد پر کہیں اپنے ساتھ ناانصافی کرتے ہوئے زبان رنگ نسل کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ تو نہیں ڈالا یا واقعی ہم ان عوامل سے باہر نکل کر سوچنے لگے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کی افواج کے کئی سربراہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اس ضرورت کو محسوس کیا کہ پاکستانی قوم ایک مستحکم پاکستان اپنے ووٹ کے ذریعے بناسکتی ہے اسی لئے جمہوریت کا عمل شروع ہوا اور اس تسلسل میں انتخابات بھی ہوئے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی بنیں اور تعلیمی منصوبہ بندیاں بھی سامنے آئیں ہنوز بقول مرزا غالب ’’آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی۔ اب کسی بات پر نہیں آتی‘‘ جس قوم کی ہنسی بین الاقوامی سازشوں نے چھین لی ہو اور جس قوم نے خود اپنے لئے بعض مشکل فیصلے کرلے ہوں تو ایسی صورت میں ’’ابن مریم ہوا کرے کوئی‘‘ کے مصدق صرف اور صرف تعلیم اور کردار کے ذریعے ہی پاکستان کو مشکل حالات سے نکالا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں سنجیدگی کے ساتھ اس جانب توجہ دیں کہ ہمیں آنے والے وقتوں میں کسی ایک قوم سے نہیں بلکہ پوری دنیا سے مقابلہ کرنا ہے یہ مقابلہ ہتھیار کا نہیں بلکہ تعلیمی معیار کا ہے۔ لیکن تعلیمی اداروں کے حالات سے کون بے خبر ہے ارباب اختیار خوب جانتے ہیں کہ اندرون خانہ کیا معاملات ہیں اور ایک عام آدمی کی دلچسپی تو تعلیم میں صرف اتنی ہی ہے کہ اسے یا اس کی اولاد کو اعلیٰ نمبروں کے ساتھ ڈگری مل جائے خواہ اس کے نتیجے میں اسے کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے لیکن اس کا مقصد یہ نہیں کہ یہ ہمارا مجموعی رویہ ہے استثنیٰ اس میں بھی نظر آتا ہے۔ آج کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم جو کچھ بھی اپنے علمی ورثے کو بچانے کے لئے کرسکتے ہیں وہ کریں ۔ان تعلیمی اداروں میں سیکورٹی کے نظام کو بہتر بناتے ہوئے، اپنے نوجوانوں کو تربیت بھی دیں تاکہ ہماری نسلیں اندرونی اور بیرونی جارحیت اور انتہا پسندانہ رویوں کا مقابلہ کرسکیں۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم سنجیدگی کے ساتھ سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلے کریں اور جو رقم سیکورٹی کے لئے مختص کی گئی ہے اسے اسی کام میں خرچ کریں۔ کیونکہ یہی وہ راستہ ہےجس سے قوم کا اعتماد بھی بحال ہوگا اور ہماری نئی نسلوں کو صحیح علمی ماحول اور امن و سکون میسر آئے گا۔ ایسے نازک وقت پر ہمیں اجتماعی طور پر ایک قوم کی شکل میں ڈھلنا ہوگا کیونکہ یہی وقت کا تقاضا ہے اور یہی ایک مستحکم پاکستان ہم سے چاہتا ہے۔
قائداعظم ، علامہ اقبال اور قائد ملت کی ارواح کے لئے بہترین تحفہ تو یہ ہوگا کہ ہم اپنی سیاسی ، سماجی اور انا کو اپنے ہی ہاتھوں سے قبر میں دفن کردیں تاکہ ہماری قوم زندہ رہ سکے اور ہم مستقبل میں وہی مقام و مرتبہ حاصل کرسکیں جو غزالی، فارابی ، رشد، کندی، سینا، سرسید، حالی، حسرت مولانا محمدعلی جوہر اور دیگر ملت اسلامیہ کے سپوتوں کو رب نے تفویض کیا۔