ڈاکٹرمحمد نجیب قاسمی سنبھلی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا : بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ انہیں روزے کے ثمرات میں بجز وبھوکا پیاسارہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ انہیں رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ (ابن ماجہ، نسائی)
معلوم ہوا کہ صرف بھوکا پیاسا رہنا روزے کے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں روزے کے چند بنیادی مقاصد کو سمجھیں، تاکہ اُن مقاصد کو سامنے رکھ کر ماہ رمضان کے روزے رکھے جائیں۔
تقویٰ: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جائو۔ (سورۃ البقرہ )
قرآن کریم کے اس اعلان کے مطابق روزے کی فرضیت کا بنیادی مقصد لوگوں کی زندگی میں تقویٰ پیدا کرنا ہے ۔ تقویٰ اصل میں اللہ تعالیٰ سے خوف ورجاء کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے طریقے کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔ روزے سے خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور یہی تقویٰ یعنی اللہ کے خوف کی بنیاد ہے۔ روزے کے ذریعے ہم عبادات، معاملات، اخلاقیات اور معاشرت غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنے خالق، مالک ورازق کائنات کے حکم کے مطابق زندگی گزارنے والے بن سکتے ہیں۔
اگر ہم روزے کے اس اہم مقصد کو سمجھیںاور جو قوت اور طاقت روزہ دیتا ہے، اسے لینے کے لئے تیار ہوں اور روزے کی مدد سے اپنے اندر خوف خدا اور اطاعت امر کی صفت کو نشو ونما دینے کی کوشش کریں تو ماہ رمضان ،ہم میں اتنا تقویٰ پیدا کرسکتا ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں، بلکہ اس کے بعد بھی گیارہ مہینوں میں زندگی کی شاہراہ پر خاردار جھاڑیوں سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے چل سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو روزے کے اس اہم مقصد کو اپنی زندگی میں لانے والا بنائے۔( آمین)
گناہوں سے مغفرت:۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے یعنی خالصۃً اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے روزہ رکھا، اس کے گزشتہ تمام (چھوٹے) گناہ معاف فرمادیے جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
اسی طرح حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے:جوایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے یعنی ریا، شہرت اور دکھاوے کے لئے نہیں، بلکہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے رات میں اللہ کی عبادت کے لئے کھڑا ہوا یعنی نماز تراویح اور تہجد پڑھی تو اس کے گزشتہ تمام (چھوٹے) گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
اسی طرح حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے: جو شحض شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لئے کھڑا ہوا، یعنی نماز تراویح وتہجد پڑھی، قرآن کی تلاوت فرمائی اور اللہ کا ذکر کیا تو اس کے گزشتہ تمام (چھوٹے) گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے صحابۂ کرام سے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ، صحابۂ کرام قریب ہوگئے۔ جب حضور اکرم ﷺ نے منبر کے پہلے درجے پر قدم مبارک رکھا، تو فرمایا آمین ۔ جب دوسرے درجے پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین ۔ جب تیسرے درجے پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین ۔ جب آپ ﷺخطبے سے فارغ ہوکر نیچے اترے تو صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے ۔
جب پہلے درجے پر میں نے قدم رکھا تو انہوں نے کہا ،ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا ،پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکی، میں نے کہا ،آمین۔ پھر جب دوسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپ ﷺ کا ذکر مبارک ہو اور وہ آپ ﷺ پردرود نہ بھیجے، میں نے کہا آمین۔ جب میں تیسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچے اور وہ اسے جنت میں داخل نہ کراسکیں، میں نے کہا آمین۔ (بخاری، صحیح ابن حبان، مسند حاکم، ترمذی، بیہقی)
غرضیکہ کس قدر فکر اور افسوس کی بات ہے کہ ماہ مبارک کے قیمتی اوقات بھی غفلت اور معاصی میں گزار دیئے جائیں جس سے سابقہ گناہوں کی مغفرت بھی نہ ہوسکی۔ لہٰذا ہمیں رمضان کے ایک ایک لمحے کی حفاظت کرنی چاہئے ،تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہم حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضور اکرم ﷺ کی اس دعا کے تحت داخل ہوجائیں۔
حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ انہیں روزے کے ثمرات میں بجزو بھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ (سنن ابن ماجہ) یعنی روزہ رکھنے کے باوجود دوسروں کی غیبت کرتے رہتے ہیں یا گناہوں سے نہیں بچتے یاحرام مال سے افطار کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ہر ہر عمل خیر کی قبولیت کی فکر کرنی چاہئے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا کہ کیا یہ شب ِمغفرت ،شب ِقدر ہی تو نہیں ہے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہوتے ہی اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ ہمیں عید کی رات میں بھی اعمال صالحہ کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے، تاکہ رمضان میں کی گئی عبادتوں کا بھرپور اجروثواب مل سکے۔
قرب الٰہی: روزےدار کو اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے۔ روزے کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں خود ہی روزے کا بدلہ ہوں۔(صحیح بخاری) اس سے زیادہ اللہ کا کیا قرب ہوگا کہ اللہ جل شانہ خود ہی روزے کا بدلہ ہے۔ نیز حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ تین لوگوں کی دعا رد نہیں ہوتی ، ان تین اشخاص میں سے ایک روزے دار کی افطار کے وقت کی دعا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں۔ (صحیح ابن حبان)
عند اللہ اجر عظیم کا حصول: اس برکتوں کے مہینے میں ہر نیک عمل کا اجروثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر عمل خیر کا دنیا میں ہی اجر بتادیا کہ کس عمل پر کیا ملے گا ،مگر روزے کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: الصَّوْمُ لِی وَانَا اَجْزِیْ بِہ روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ بلکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ میں خود ہی روزے کا بدلہ ہوں۔ اللہ اللہ کیسا عظیم الشان عمل ہے کہ اس کا بدلہ ساتوں آسمانوں وزمینوں کو پیدا کرنے والا خود عطا کرے گا یا وہ خود اس کا بدلہ ہے۔ روزے میں عموماً ریا کا پہلو دیگر اعمال کے مقابلے میں کم ہوتا ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے روزےکو اپنی طرف منسوب کرکے فرمایا ،الصَّوْمُ لِی روزہ میرے لئے ہے ۔
لہٰذا ہمیں ماہ رمضان کی قدر کرنی چاہئے کہ دن میں روزہ رکھیں، پنچ وقتہ نمازوں کی پابندی کریں، کیونکہ ایمان کے بعد سب سے زیادہ تاکید قرآن وحدیث میں نماز کے متعلق وارد ہوئی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی آخری وصیت بھی نماز کے اہتمام کی ہی ہے۔ کل قیامت کے دن سب سے پہلا سوال نماز ہی کے متعلق ہوگا۔ نماز تراویح پڑھیں اور اگر موقع مل جائے تو چند رکعات رات کے آخری حصےمیں بھی ادا کرلیں ۔ فرض نمازوں کے علاوہ نماز تہجد کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے۔
رمضان کے آخری عشرے میں تہجد پڑھنے کا اہتمام کریں کیونکہ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے میں پائی جاتی ہے جس میں عبادت کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں یعنی پوری زندگی کی عبادت سے زیادہ افضل قرار دیا ہے۔ اسی اہم رات کی عبادت کو حاصل کرنے کے لئے ۲ہجری میں رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد سے حضور اکرم ﷺ ہمیشہ آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مبارک ماہ کی قدر کرنے والا بنائے اور شب قدر میں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جس طرح ہم روزےمیں کھانے پینے اور نفسانی خواہشات کے کاموں سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے رکے رہتے ہیں ،اسی طرح ہماری پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہونی چاہئے، ہماری روزی روٹی اور ہمارا لباس حلال ہو، ہماری زندگی کا طریقہ حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرامؓ والا ہو، تاکہ ہماری روح ہمارے جسم سے اس حال میں جدا ہو کہ ہمیں ، ہمارے والدین اور سارے انس وجن کا پیدا کرنے والا ہم سے راضی وخوش ہو۔ دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کے وقت اگر ہمارا مولا ہم سے راضی وخوش ہے تو ان شاء اللہ ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی ہمارے لئے مقدر ہوگی کہ اس کے بعد کبھی بھی ناکامی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور رمضان کے صیام وقیام اور تمام اعمال صالحہ کو قبول فرمائے۔ رمضان کے بعد بھی منکرات سے بچ کر احکام خداوندی کے مطابق یہ فانی وعارضی زندگی گزارنے والا بنائے۔( آمین، ثم آمین)