نوید عصمت کاہلوں
کپاس کی فصل بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ دنیا بھر میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کیلئے خام مال کا واحد ذریعہ ہے۔ کپاس سے دھاگے سے لیکر کپڑے بننے تک کا عمل مکمل ہوتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والا بنولہ بناسپتی گھی کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ الغرض کپاس کی مانگ پوری دنیا میں ہے اور یہ دنیا کی چند بیش قیمت فصلوں میں شمار ہوتی ہے۔ پاکستان کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ ملکی مجموعی پیداوار کا قریباً 72 فیصد پنجاب میں پیدا ہوتا ہے۔ کپاس اور اس کی مصنوعات کے ذریعے ملک کو کثیر زرِمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ کپاس کو ہماری ملکی معیشت میںاہم حیثیت حاصل ہے۔ اس کا ہماری قومی جی ڈی پی میں 1.5 فیصد اور معیاری زرعی مصنوعات کی تیاری میں 7 فیصد حصہ ہے۔ کپاس دنیا کی ایک اہم ترین ریشہ دار فصل بھی ہے۔ پاکستان میں 2015-16 میں شدید بارشوں، سفید مکھی اور گلابی سنڈی کے شدید حملے کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی اور ہماری کاٹن انڈسٹری تنزل پذیری کا شکار ہوئی اور کپاس کے کاشتکاروں کو مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ عالمی منڈی میں بھی ہماری کپاس کا پرسانِ حال کوئی نہ تھا کیونکہ کپاس کی صاف چنائی پر توجہ نہ دی جا رہی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر کپاس کی مانگ بنیادی طور پر دو باتوں پر انحصار کرتی ہے۔ کپاس کی فصل پر بیماریوں اور کیڑوں کا کم سے کم حملہ ہوا ہو، اس کی چنائی آلائشوں اور بیرونی آمیزش سے پاک رہے۔ 2016-17 میں پاکستان میں کپاس کی نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور کاٹن انڈسٹری کو سہارا دینے کیلئے حکومت نے وزیراعظم کسان پیکج کیا تھا اور 25 ملین گانٹھوں کے حصول کے لئے سیکرٹری زراعت نے کاٹن انڈسٹری کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کیلئے شب و روز ایک کر دئیے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پرائیویٹ سیکٹر کو پبلک سیکٹر کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی دعوت دی گئی۔
کپاس کے کاشتکاروں سے رابطہ کرنے کی غرض سے صوبائی سطح پر پرائیویٹ انڈسٹری کے تعاون سے صوبہ بھر میں کپاس کے سمینارز کا انعقاد کیا گیا۔ کپاس کے کاشتکاروں کے لئے پہلی مرتبہ مون سون بارشوں کے نقصانات سے کپاس کی فصل کومحفوظ رکھنے اور زیادہ پیداوار کے حصول کے لئے کسان پیکیج کے تحت 6 کروڑ روپے کی سبسڈی سے رین واٹر مینجمنٹ، پائلٹ پراجیکٹ مکمل کیا گیا جس کے لئے ابتدائی مرحلے میں جنوبی پنجاب کے 7 اضلاع بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان، لودھراں، وہاڑی، خانیوال اور ملتان میں کپاس کے کھیتوں سے بارش کے اضافی پانی کے اخراج کے لئے 105 بارشی تالابوں اور 70 سے زائد sunken field کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ کپاس کے کھیتوں میں کھڑے بارش کے اضافی پانی کی فوری نکاسی ممکن بنانے کے لئے 250 پورٹ ایبل پمپس فراہم کئے گئے ہیں۔ اس منفرد پراجیکٹ کے ذریعے کپاس کی فصل کی بہتر پیداوار اور بارش کا پانی ضائع ہونے سے محفوظ کرکے کسانوں کی سہولت کے لئے جدید نظام آبپاشی سے فارم کی سطح پر پانی کے ذخیرہ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ کپاس کی فصل کو بہتر بنانے کیلئے اس کی صاف چنائی پر خاص طور پر توجہ گئی تاکہ بین الاقوامی سطح پر کپاس کی اچھی قیمت لگ سکے۔ ادھر 2017-18 میں بین الاقوامی طور پر کپاس کی قیمتوں میں یک لخت غیر معمولی اضافہ ہوا جس کی بنیادی وجہ دنیا کے کئی ممالک میں طوفان اور آفات کی وجہ سے کپاس کی فصل متاثر ہوئی، بھارت میں کپاس بارشوں اور سیلاب سے شدید متاثر ہوئی اور اسی وجہ سے امریکی کپاس کی برآمدات کے آرڈرز منسوخ ہو گئے۔ اس دورانیہ میں امریکہ، چین، بنگلہ دیش، بھارت پاکستانی کپاس کے خریدار دکھائی دئیے کیونکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق کپاس کی صاف چنائی پر یہاں خاص توجہ دی گئی تھی۔ پی سی جی اے (پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن) کے مطابق سال 2017-18میں صوبہ میں کپاس کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 20.48 من ریکارڈ کی گئی جبکہ سال 2016-17 میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار 20 من رہی۔ بین الاقوامی منظر نامے کے مطابق روئی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر آئندہ سال بھی قیمتوں میں زیادہ اضافے کا رجحان برقرار رہے گا۔ ترکی ہر سال امریکہ سے 519 ملین ڈالر کی کپاس درآمدت کرتا ہے اور یہ ایک عالمی بہت بڑی منڈی کے طور پر جانا جاتا تھا۔ ترکی میں ممکنہ طور پر امریکی کپاس کی درآمد روکنے سے بھارت، مصر، پاکستان، ازبکستان اس کیلئے کپاس کی درآمد کیلئے نئی تجارتی منڈیوں کے روپ میں سامنے آئیں گے۔ اسی طرح چین کے پاس اپنی کپاس کے ذخائر ناکافی ہیں اور بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب اور دبائو چائنہ کو نئی منڈیاں تلاش کرنے پر مجبور کرے گا۔ ازبکستان جو پہلے خام کپاس درآمد کرتا تھا اب اپنی کاٹن انڈسٹری اور فیکٹریاں لگا چکا ہے جس کے باعث ازبکستان کپاس برآمد نہیں کرے گا اور جو ممالک ازبکستان سے کپاس خریدتے تھے وہ بھی نئی منڈیوں کی تلاش کریں گے، بھارت میں بھی جاری مسائل اور موسمی تغیر کی وجہ سے کپاس کی پیداوار اور کو الٹی متاثر ہوئی ہے جس سے بھارت کپاس کی اس سیزن میں درآمد کرے گایہ صورتحال بھی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے کپاس کے برآمد کنندگان اور کاشتکاروں کے حق میں جائے گی یہ تمام عالمی طور پر پیدا ہونے والے مناظر پاکستانی کپاس کے کاشتکار کیلئے بہت خوش آئند ہیں۔ ممکنہ طور پر تجارتی حجم کے تناظر میں پاکستان کپاس کی ایک بہترین منڈی کے طور پر عالمی طور پر اپنی جگہ بنا سکتا ہے اور یہ منڈی آنے والے کئی سالوں کیلئے پاکستان کی معیشت کیلئے ایک بہت بڑا بریک تھرو ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمارے کپاس کے کاشتکاروں کیلئے خوشحالی کا ایک نیا اور تازہ جھونکا ثابت ہو سکتی ہے۔ موجودہ بین الاقوامی طور پر سامنے آنے والے منظرنامے سے ہماری کاٹن انڈسٹری کی گروتھ کیلئے ایک نادر موقع ہے، ضرورت اس امر کی کہ ہمارے کاشتکار بھائی زیادہ سے زیادہ رقبہ پر کپاس کاشت کریں۔ اس وقت حکومت اور محکمہ زراعت ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور انہیں ہر ممکن حد تک سپورٹ کر رہا ہے۔ کاٹن انڈسٹری کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے حکومت ایک روڈ میپ "کاٹن مشن "2025" تیار کر رہی ہے۔ جس پر عمل پیرا ہوکر کپاس کو اس کے اصل مقام پر لے کر جانا ہے۔ کاٹن مشن 2025 کی تیاری کا مقصد صوبہ میں روئی کی 20 ملین گانٹھیں حاصل کرنا ہے۔ علاوہ ازیں کاٹن کونسل کی تشکیل عمل میں لائی جارہی ہے جس میں حکومتی نمائندوں سمیت گروورز، ایپٹما، پی سی پی اے، پی سی جی اے، کراپ لائف و دیگر سٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیا جارہا ہے۔ تاکہ تمام سٹیک ہولڈرز کے مشورہ کے ساتھ ایسا فریم ورک تیار کیا جاسکے جس سے کپاس کو دوبارہ بحال کیا جاسکے۔ امسال60 لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس کی کاشت کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کیلئے ایک لاکھ ایکڑ کپاس کے لیے ترقی دادہ اقسام کا بیج 50 فیصد سبسڈی پر فراہم کیا جارہا ہے۔ کپاس کی منظور شدہ اقسام کے بیج پر ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازیخان کے کاشتکاروں کو 700 روپے فی بیگ سبسڈی کی فراہمی جاری ہے۔ کپاس کے کاشتکاروں کو 14 کروڑ 74 لاکھ روپے کی خطیر رقم سے سپرے مشینری سبسڈی پرفراہم کی جارہی ہے۔ گزشتہ سال کپاس کی فصل کو گلابی سنڈی کے حملے سے بچانے اور پیداوار بڑھانے کے لیے 96.2 ملین روپے کی لاگت سے صوبہ بھر کی 50 تحصیلوں میں فی تحصیل 50 ایکڑ پر مشتمل نمائشی بلاک قائم کئے گئے جن کے بہتر نتائج برآمد ہوئے۔ اس سال بھی محکمہ زراعت پنجاب اس ضمن میںکپاس کے علاقوں میں گوسیپلور(روپس) اور سیکس فیرمون کے نمائشی پلاٹس بھی لگائے گا۔اس سکیم کے تحت کپاس کے مرکزی و ثانوی علاقے ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان،ساہیوال،سرگودھا اور فیصل آباد ڈویژنوں کی 54 تحصیلوں میں 50ایکڑ تک آبپاش زرعی اراضی کے مالک کاشتکار اکیلے یا گروپ کی صورت میں درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔