• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے شمال مغربی حصے میں واقع وفاق کے زیر انتظام نیم خود مختار قبائلی علاقوں کے عوام پچھلی سات دہائیوں کے دوران ریاست کے عمومی قانون کے بجائے دور غلامی کی یادگار ایف سی آر نامی ظالمانہ قانون کے تحت زندگی بسر کرتے رہے، تاہم پچھلے چند برسوں میں رونما ہونے والے حالات کے باعث ان علاقوں میں یہ احساس ابھرا کہ انہیں بھی ملک کے دوسرے حصوں کی طرح تمام آئینی اور بنیادی حقوق حاصل ہونے چاہئیں اور چند ایسے عناصر کے سوا جو اپنے مخصوص مفادات کی خاطر فاٹا میں کوئی مثبت تبدیلی دیکھنا نہیں چاہتے، فاٹا کے عوام کی بہتر تبدیلی کی اس خواہش کی پوری قوم کی جانب سے بھرپور پذیرائی کی گئی۔ مسلم لیگ ن کی موجودہ وفاقی حکومت نے نومبر2015میں اس وقت کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں فاٹا اصلاحات کمیٹی قائم کی جس نے علاقے کے عوام کی آراء کی روشنی میں مرتب کردہ اپنی سفارشات چند ماہ کے اندر پیش کردیں جن میں ایف سی آر کا خاتمہ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ کار کو فاٹا تک وسیع کرنا اور قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو کلیدی اہمیت حاصل تھی۔فاٹا کے عوام سمیت ملک کے بیشتر سیاسی، سماجی اور عوامی حلقوں نے ان سفارشات کا پرجوش خیرمقدم کیا جس کی بناء پر توقع تھی کہ انہیں جلد ازجلد عملی جامہ پہنا دیا جائے گا لیکن وفاقی حکومت کی دو اتحادی جماعتوں کی قیادتیں اس عمل میں رکاوٹ بنی رہیں اور حکومت گومگو کے عالم میں رہی۔تاہم پچھلے چند ہفتوں کے دوران ایف سی آر کے خاتمے اور ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو فاٹا تک توسیع دینے کے اعلانات کردیے گئے لیکن خیبر پختون خوا میں انضمام کا فیصلہ اس کے باوجود مؤخر ہوتا چلا گیا جس کی بناء پر یہ خدشات سر اٹھا نے لگے کہ شاید موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت میں یہ قدم اٹھانے سے قاصر رہے گی ۔ تاہم گزشتہ روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں اصلاحات کے علاوہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی توثیق بھی عمل میں آگئی جسے بلاشبہ ایک تاریخ ساز واقعہ کہا جاسکتا ہے۔اجلاس میں حکومت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو انتظامی اور مالی طور پراختیارات منتقل کرنے پر بھی اتفاق کیا گیانیز فیصلہ کیا گیا کہ گلگت بلتستان کو پانچ سال کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دی جائے اور علاقے کی ترقی کے لیے مناسب مراعات دے کر پاکستان کے دیگر علاقوں کے برابر لایا جائے۔ اجلاس میں فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کی توثیق کرتے ہوئے انتظامی، عدالتی اور قانونی اصلاحات متعارف کرنے پر اتفاق کیا گیا۔اجلاس میں متعلقہ وزارتوں کو فاٹا انضمام کے لیے تمام قانونی، آئینی اورانتظامی طریقہ کار کو پارلیمنٹ میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے طے کرنے کی ہدایت کی گئی۔فاٹا میں 10سال میں ترقیاتی کاموں کے لیے اضافی فنڈ فراہم کرنے کی بھی توثیق کی گئی ۔ باخبر ذرائع کے مطابق حکومت نے اپنے دو سیاسی اتحادیوں کی مخالفت کو خاطر میں لائے بغیر ہی قبائلی علاقوں کو خبیر پختونخوا میں ضم کرنے والا فاٹا اصلاحات بل قومی اسمبلی میں بدھ 23 مئی کو پیش کرنے کا فیصلہ کرلیاہے۔دوسری جانب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف ظفر اللہ کے زیر صدارت اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کے اہم ارکان نے بھی شرکت کی ، ان کی جانب سے فاٹا کے انضمام سے اتفاق کرتے ہوئے اس عمل کو ایک سال میں مکمل کرنے پر زور دیا گیا۔واضح رہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اعلان کیا تھا کہ فاٹا کے حلقوں پر مشتمل خیبر پختونخوا اسمبلی میں اکتوبر 2019 میں انتخابات ہوں گے۔ خیبر پختون خوا میں شامل کرکے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کایہ فیصلہ اور اس کے ساتھ علاقے میں اصلاحات کے لیے طے کیے جانے والے اقدامات یقیناً نہایت مثبت، خوشگوار اور دور رس نتائج کا سبب بنیں گے ، قبائلی علاقوں کے عوام بھی پوری قوم کے ساتھ ترقی کے سفر میں شریک ہوسکیں گے اور اس سے صرف فاٹا نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی راہیں کشادہ ہوں گی۔

تازہ ترین