• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زرعی شعبے کے موحولیاتی مسائل

ہر ملک میں زراعت کا شعبہ بہت اہمیت کا حامل ہو تا ہے ،یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستا ن کا شمار ایک زرعی ملک میں ہوتا ہے ۔ اس کی بدولت کسی بھی ملک کی آبادی کے بیشتر حصے کو خوراک فرا ہم کی جاتی ہے ،مگر ہمارے کرہ ٔ ارض پر تیزی سے بڑھتے ہوئے درجے حرارت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب زرعی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے ۔محکمہ زراعت کے مطابق عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی گرمی کی شرح نے گلیشیرز کی صورت میں پانی کے ذخائر کوپگھلانا شروع کر دیا ہے ،جس کے سبب مستقبل میں شدید طوفانوں کے ساتھ ساتھ طغیانیوں اور تیز بارشوں کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے اور یہ سلسلہ انسانی آبادیوں کی بقاء کے لیے بہت زیادہ مسائل بھی پیدا کرسکتا ہے ،لہٰذا ہمیں اس کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہیں ۔ماہرین ماحولیات کے مطابق اگر نئے آبی ذخائر اور ڈیم کے ساتھ ساتھ واٹر ریزر وائر تعمیر کر لئے جائیں تو پانی کو محفوظ کرکے زرعی ضروریات کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ملک میں نہری نظام ہونے اور زمینوں کی زر خیزی کے باوجود کئی سال ایسے بھی آئے ہیں جب لاکھوں ٹن گندم در آمد کرنا پڑی ۔علاوہ ازیں فوڈ گروپ کی در آمدات کئی ارب ڈالرز میں ہوتی ہیں ۔روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ بھی زراعت کا شعبہ ہی ہے ۔کسی بھی ملک کی صنعتوں کے لیےخام مال کی فراہمی اسی شعبےکے ذریعے ہی ممکن ہے ۔پاکستان کی آبادی کا 60 فی صد سے زائد حصہ زراعت سے منسلک ہے ۔ اتنا زیادہ اہمیت کا حامل ہونے کے باوجودیہ شعبہ زرعی مسائل سے مالا مال ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق 50 اور 60 کی دہائی کے معاشی پالیسی سازوں نے زیادہ تو جہ صنعتی شعبے کی جانب مر کوز کررکھی تھی ،اسی وجہ سے 1947 سے لے کر 1950 کےعشرے کے آخر تک شعبہ زراعت کی شر ح افزائش 8 سے 10 فی صد تک پہنچ گئی تھی ۔کافی عرصے تک تو یہ شرح بر قرار رہی،بعدازاں عدم دل چسپی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہو گئی ۔ مہنگائی کے باعث غریب کسانوں پر ایک ظلم یہ بھی ہورہا ہے کہ زراعت کی قیمتیں مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہیں ۔اس طر ح وسائل کا زرعی شعبے سے صنعتی شعبے کی جانب منتقل ہونے کا سلسلہ جاری ہے ۔ تحقیق کے مطابق پاکستان میں 50 کی دہائی میں جو صنعتی ترقی ہوئی وہ زراعت کے شعبے کی قربانی کی بنیادپر ہوئی ۔اس کے بعد 70 کی دہائی میں نئے نئے زرعی مسائل جنم لینے لگے اور حکومتی غفلت کے باعث زرعی مسائل کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا ۔ اگر چہ1973 ء میںکچھ ایسے پرو گرام شروع کیے گئے جن کا مقصد زرعی شعبے کی ترقی تھی ۔لیکن ان میں سے کچھ پروگرام اقرباپروری کی ،کئی کریشن کی اور بہت سے کاغذی کارروائیوں کی نذر ہو گئے ۔اس کے علاوہ زرعی تر قیاتی ادارے بھی قائم کیے گئے ۔80 میں اس میں خاطر خواہ تر قی ہوئی ۔کسانوں کو قر ضے دیے گئے ۔کئی اقسام کے بیج در یافت کیے گئے ،مگر اس اثناء میں ایک طرف چاولوںکی بر آمدات بڑھی اور دوسری جانب گندم کی در آمدات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ۔

پاکستان کا ایک اہم زرعی مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اب تک اپنی زمین سے بھر پور فائدہ بھی نہیں اُٹھا یا ۔ابھی تک 20 ملین ہیکٹر ز رقبہ زر عی لحاظ سے غیر در یافت شدہ ہے ۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال 80 ہزار سے لے کر ایک لاکھ ایکڑ تک رقبہ سیم وتھور کی وجہ سے متاثر ہور ہا ہے ۔زمینوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی وجہ سے پیداوار کم ہورہی ہے ۔ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ، کل زیر کاشت رقبے کا 35 فی صد ایکڑ سے لے کر 12 ،ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے ،جس کی وجہ سے بھر پور پیداوار حاصل نہیں ہو تی ۔علاوہ ازیں خشک سالی کے باعث کسانوں کے لیے زرعی مسائل بڑھ جاتے ہیں ۔ملک میں 40 فی صد زراعت کا انحصار بارش کے پانی پر ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ سیلاب آنے کے سبب جوفصلوں اور زراعت کانقصان ہوتا ہے،اسی کے لیے بھی اب تک کوئی خاص قدامات نہیں کیے گئے ہیں ۔ہر سال اس کی وجہ سے زراعت کے شعبے کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔کسانوں کوزرعی مسائل کااُس وقت زیادہ مسئلہ پیش آتا ہے جب انہیں جعلی کھاد ،ناقص ادویات اور بیج ملتی ہیں ۔ اگر حکومت ابتدائی طور پر ہی کسانوں کے زرعی مسائل حل کردے تو عوام بہت سے مسائل کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں ۔

پاکستان کا کل رقبہ 79.6 ملین ایکڑ ہے ،جس میں سے 23.7 ملین ایکڑ زرعی ہے جو کل رقبے کا 28 فی صد ہے ۔اس میں سے بھی 8 ملین ایکڑ رقبہ زیر کاشت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑا ہے ،حالا ں کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ،علاوہ ازیں یہاں کا ماحول اور موسم بھی زراعت کے لیے بہترین ہے ۔پاکستان میں مختلف اقسام کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق زرعی شعبہ ملک کے 45 فی صد لوگوںکے روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔یہ شعبہ لوگوں کو خوراک فراہم کرنے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔پاکستانی بر آمدات سے حاصل ہونے والے زر ِمبادلہ کا 45 فی صد حصہ زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے ۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کا اہم شعبہ ہونے کے باوجود بر ی طرح نظر انداز ہورہا ہے ،جس کے نتیجے میں گو ناں گوں مسائل در پیش ہیں ۔کسانوں کو پانی کی کمی کا بھی سامنا رہتا ہےاورآب پاشی کی سہولتیں بھی ناکافی ہیں ۔اس جدید دور میں بھی پاکستان کا کسان فر سودہ اور پرانے طر یقوں سے کاشت کاری کرنے پر مجبور ہے ،کیوں کہ زرعی آلات اتنے مہنگے ہیں کہ ان کو خرید نا کسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔

ماحولیاتی اداروں کے پاس غذائی اشیا ء ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظامات بھی نہیں ہیں ،اسی وجہ سے تقسیم کا نظام بھی ناقص ہے ۔ کسانوں کی ناخواندگی بھی اہم مسئلہ ہے ، یہ زراعت کے شعبے میںجدت لانے میں ایک رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ علاوہ ازیں یہ شعبہ فنڈز کی کمی کا بھی شکار ہے۔پاکستا ن میں پیدا ہونے والی کپاس ،گندم ،گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ان کی بدولت قیمتی زر مبادلہ حاصل کرتا ہے ،اس کے باوجود زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے ۔ہمارے ملک کے مقابلے میں دنیا کے دیگر ممالک میں زیادہ پیداوار ہے۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق یوریا کھاد کی اوسط 1616 جب کہ ڈی اے پی کی اوسط قیمت 4046 ہے ۔پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث کسان ان تمام سہولیات سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔

آب پاشی کے ناقص نظام کے سبب بہت سا پانی ضائع ہو جا تا ہے ۔ ملک میںچھوٹے کھیتوں کی تعداد زیادہ ہے ،لہٰذا ان میں جدید طر یقوں سے کاشت کاری ممکن نہیں ہے ۔اس کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں ،جن کی وجہ سے یہ مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے ۔مثا ل کے طور پرکھاد کا غیر مناسب استعمال ،غیر معیاری بیجوں کا استعمال اورناقص زرعی ادویات،جن کے باعث فی ایکڑ پیداوار میں کمی واقع ہورہی ہے ۔ڈیموں کی کمی اور بارشوں کے باعث گزشتہ تین سالوں سے پاکستان میں آنے والے سیلابوں نے کسانوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا ہے ۔ان سالوں میں کسانوں کو تقریباً پانچ لاکھ ستر ارب روپے کا نقصان اُٹھانا پڑا ۔حکام کو چاہیے کہ کسانوں سے مشاورت کرکے ہر فصل کے پیداوار ی اخر اجات کو مد نظر رکھتے ہوئے ،ان کی قیمتیں متعین کریں ۔ڈیموں کی تعمیر بلا تاخیر کی جائے ،تا کہ فصلوں کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی ذخیرہ کیا جاسکے اور ساتھ ساتھ توانائی بھی پیدا کی جائے ۔ زراعت کی ترقی کے لیے انفراسٹر کچر پر توجہ دی جائے،کسانوں کو بلا سود قر ضے فراہم کیے جائیں اور چھوٹے کاشت کاروں کو مالی امداد دی جائے۔ اس طر ح زراعت کا شعبہ بہت جلد ترقی کرسکتا ہے ۔

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ زراعت سےنہ صرف پیداوار بڑھا ئی جاسکتی ہے ،بلکہ خوراک کی کمی بھی پوری کی جاسکتی ہے ۔ اس کے ذریعے خشک سالی ،سیلاب اور دیگر موسمی تغیرات کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے ،مگر افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اس شعبے میں بہت زیادہ پیچھے ہے ۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہماری زمین متعدد قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ،پھر بھی ابھی تک کوئی خاطر خواہ تر قی نہیں ہوئی ،انفرادی ترقی میں تو پاکستان نے اپنا کچھ نہ کچھ مقام بنا یا ہے ،مگر دیگر ممالک کے مقابلے میں آج بھی بہت پیچھے ہے ۔ہمیں ان کے مدمقابل آنے کے لیے موثر اقدامات اور سخت محنت کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔

تازہ ترین